شہَنشاہ ِ شب : وحید احمد
شہَنشاہ ِ شب
دن جو معزول ہُوا ‘ شام معطّل کر کے
میری باری آئی
مَیں ہُوا تخت نشیں خود کو مکلّل کر کے
تخلیہ !!!
تالی بجاتی ہُوئی پلکوں نے کہا
نرم پَیروں سے ہُوئیں ساری کنیزیں رخصت
جن کی پوشاک کے ریشوں میں کشیدہ دن تھا
پچھلے پَیروں پہ ہُوئے سارے مصاحب واپس
کورنش کرتے ہُوئے ‘ جُھکتے ہُوئے
جن کی چالوں میں عیاں پچھلا خمیدہ دن تھا
ایک مِقراض چلی
طاق میں جلتے ہُوئے سارے چراغوں کی لَویں کٹتی گئیں
رات پہنے ہوئے دربان نے آوازہ بھرا :
نیند کو حاضِر کِیا جائے!
نیند آئی تو اکیلی آئی
بے نیازی کی رِدا پہنے ہُوئے
سِدرہ ء نُور کی خوش بُو سے بھری
آسمانوں کی ہَوا پہنے ہُوئے
شاخ دَر شاخ ثمر تک آئی
جسم کی سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے سَر تک آئی
تاج دارِ شب ِ دیجُور ہُوں مَیں ‘ خود کو مکمّل کر کے
دَر دریچوں کو مقفّل کر کے
بے حواسی کو مسلسل کر کے
سارا دن جسم کے سنگین شکنجے میں کَسا رہتا ہُوں
رات کو خود سے جدا ہوتا ہوں
جاگتے وقت ہُوں ‘ بندہ اُس کا
مَیں جو سوتا ہُوں ‘ خدا ہوتا ہُوں
وحیدؔ احمد