زمیں کے زخم کو پہلے رفو کیا جائے : آصف رشید اَسجدؔ
زمیں کے زخم کو پہلے رفو کیا جائے
پھر اُس کے بعد دریدہ فلک سیا جائے
ہمارا عکس اگر درمیاں نہ حائِل ہو
تَو آئنے کو گَلے سے لگا لیا جائے
یہ زندگی تو پرانی شراب جیسی ہے
یہ کڑوا گھونٹ ہے’ لیکِن اِسے پِیا جائے
جو رفتگاں ہیں’ اُنہیں لَوٹ کر نہیں آنا
اب اِنتظار کا بستر اٹھا دیا جائے
تمہاری یاد نے شب خون مارنا ہے’ تو کیا
دِل و دِماغ سے پہرہ ہٹا دیا جائے ؟
ہمارے سَر پہ جو ٹوٹا ہے آسمان ‘ تو کیا
اب آسمان کو سَر پر اُٹھا لیا جائے ؟
تبصرے بند ہیں، لیکن فورم کے قوائد اور لحاظ کھلے ہیں.