الفاظ کیسے بنتے ہیں یہ بھی ایک دِلچَسپ قِصّہ ہے ۔ …
اب تلوار کو عمُوماً شمشِیر ( شَم+شی+ر ) بولا جاتا ہے ۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ شِیر فارسی میں دُودھ کو کہتے ہیں تبھی تو دُودھ پیتے بَچّے کو شِیر خوار بَچّہ کہا جاتا ہے ۔ ( ویسے اِس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ایسا بَچّہ جو دُودھ کے لِئے پہلے خوار ہوتا ہے ، پِھر اُسے دُودھ مِلتا ہے ) بھئی بات یہ ہے کہ شَم فارسی میں کہتے ہیں پنجے / ناخن کو ۔ اور شیر ظاہِر ہے ایک دَرِندے کو کہتے ہیں ۔ تو شیر کے پنجے کی صِفت ؛ کہ جہاں پڑے ، چِیر / اُدھیڑ / کاٹ کے رکھ دیتا ہے ۔ یہی صِفت تلوار میں پائی جاتی ہے جِسکی وجہ سے اِسے یہ نام ” شمشِیر ( شیر کا پنجہ ) بھی دے دِیا گیا ۔
اِسی طرح کِسی نے خرگوش کو نام دینے کا سوچا ہوگا تو اُسے خیال آیا ہوگا کہ یہ نَنّھا سا پیارا سا جانوَر ہے ، اِسکے خان بڑے بڑے ہیں اور کِسی حد تک گدھے کے کانوں سے مُشابہت رکھتے ہیں ۔ پس اُس نے اِس جانوَر کا نام رکھ ڈالا ” خرگوش ” ( خر = گدھا ، گوش = کان ) یعنی فارسی الفاظ کا مطلب ہُؤا گدھے کے کان یا گدھے جیسے کانوں والا ۔
اور لفظ ” گنوار ” نِکلا ہے گاؤں سے ۔ یعنی گاؤں کا رہنے والا۔ اب چُونکہ گاؤں کے باشِندے شہری طور اطوار نہیں جانتے ، اِس لِئے اُنہیں گنوار کہا گیا۔
قدیم ہِندی راجہ ” بَھرت ” کا نام ، ماخذ ہے لَفظ ” بھارَت ” کا ۔ اُسی راجہ کے پہلوٹی کے بیٹے ” کور ” کے نام سے ترکیب نِکلی ” کور چشم ” کیُؤنکہ راجہ کور پیدائشی نابینا تھا ۔
ایک لفظ ہے ” بَن مانَس ” ۔ یہ نام بڑے قَد کی بندر نُما مخلُوق کے لِئے اِستعمال ہوتا ہے ۔ اب ” بَن ” تو ہُوا جنگل ( بنگال کا گَھنا جنگل سُندَر بَن ) ، اور مانَس ہُؤا باشِندہ ۔ تو بَن مانَس کا مطلَب ہُؤا جنگل کا باشِندہ ۔ اب لفظ ” مانَس ” کو ہی لے لیں ۔ یہ لفظ ہِندی لفظ ” مَنش ” کی جدید صُورَت ہے ۔ اور اِس کا مطلَب باشِندہ کے عِلاوہ ” اِنسان ” بھی ہے ۔ لِہٰذہ یہ ” بَن مانَس ” کے عِلاوہ ” بَھلا مانَس ” کا بھی حِصّہ ہے ۔
آج سے کوئی بیس بَرَس پہلے ایک فِلم آئی تھی ، بُہُت سوں نے دیکھی بھی ہوگی ، فِلم کا نام ہے ” دِل والے دُلہنیا لے جائیں گے ” اُس فِلم میں ہیروئین کاجل کا نام تھا ” سِمرَن ” یہ ہِندی کا لفظ ہے اور اِسکا مَطلَب ہے ” پُھولوں کا ہار ” ۔ اِسی طرح ایک اور ہِندی فِلم تھی ” دھائے اَکشَر پریم کے ” ( خیر ہمارے ہاں تو اِسکا نام ڈھائی اَکشَر پریم کے بنادِیا گیا تھا۔ اب دھائے ہِندی کا لفظ ہے ، اور اِسکا مَطلَب ہے ” دو ” ( 2 ) اور اَکشَر بھی ہِندی کا لفظ ہے اور اِسکا مَطلَب ہے ” لفظ ” یا ” بول ” تو اب فِلم کا نام ہُؤا ” دو بول پیار کے ” ۔ اب انگریزی میں جِسے word کہتے ہیں ، اُردُو میں ” لفظ ” تو ہِندی میں ” اَکشَر ” تو یہاں یہ دھیان رہے کہ پنجابی میں ” اَکَھّر ” بھی یہی معنے رکھتا ہے۔
اِسی طرح ایک اُردُو مُحاورہ ہے :
” تَیّا پانچہ کرنا ”
ہِندُؤں میں کِسی مرنے والے کے تیسرے دِن کی رَسُوم کو ۔ ۔ ۔ ۔ ( تیجا / تَیّا ) اَور پانچویں دِن کی رَسُوم کو ( پانچہ ) کہتے ہیں ۔ پَس جَب کِسی کام کا خاتمہ کرنا ہو ، اُسے سَمیٹنا یا لَپیٹنا ہو تو کہتے ہیں ۔ اُس کا تَیّا پانچہ کر ڈالا ؟
یہ عَمَل زِندہ زبانوں میں مُسَلسَل جاری رہتا ہے ۔ جیسے ( sms = short message service ) یعنی مُختَصَر پیغام ۔ اب اِسکے لِئے خاکسار نے لفظ گھڑا ہے ” پَیَمچہ ” ۔ اِسکے پیچھے مَنطَق یہ ہے کہ پیغام یا پیغام کا مُختَصَر یہی ہوگا بہ وزنِ کِتاب سے کِتابچہ اور قَدَم سے قَدَمچہ ، صَندُوق صَندُوقچہ ۔ اور پِھر آجکل فیس بُک کا بُہُت چَلَن ہے تو اِسکا ترجُمہ جو اِس ناچیز کو سُوجھا ، وُہ ہے ؛ ” کِتابِ چہرہ ” یار لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اِسکا ترجُمہ اگر ” کِتابی چہرہ ” کِیا جائے تو مضحکہ خیز ہوگا ، پس اِسکا ترجُمہ ہو ہی نہیں سکتا ۔” میرے ایسے دوستوں کی مُشکِل حل ہو گئی ہے۔ اب اِس لفظ کو رواج مِلتا ہے یا نہیں ؟ یہ اللّہ کو معلُوم ہے ۔ پِھر personification اور Apostrophe کے لِئے بھی الفاظ ” تبشِیر اور تخطیب ” اِس ہیچمنداں کو مُناسِب معلُوم ہُؤے ۔ کِیؤں کہ اِن تراکیب میں کِسی غیر اِنسانی خیال یا مخلُوق کو ادبی ضرُورَت کے تحت بَشَر بنا دِیا جاتا ہے ۔ اور Onomatopoeia کا تعلق ایسے الفاظ کی تشکیل سے ہے جو اُن آوازوں کی نقل ہوں جِنہیں یہ ظاہِر کرتے ہیں ۔ اِسکے لِئے ” صوتیہ ” یُوں ٹھیک لگا کہ فارسی میں صوت آواز کو کہتے ہیں اور اُردُو کا حِصّہ بھی ہونے کی وجہ سے لفظ ” صوت ” ہمارے لِئے بھی اجنَبی نہیں ۔ اِس سے لفظ ” صوتیہ ” گھڑنا ” کُچھ ایسا نا مُناسِب نہیں لگا ۔
مضامینِ شِبلی
بشکریہ
الفاظ کیسے بنتے ہیں یہ بھی ایک دِلچَسپ قِصّہ ہے ۔ مثلاً لفظ " اُچَکّا " کو ہی لے لیں ۔ اِس سے مُراد ہے ایسا شخص جو کِسی …
Posted by Shahid Paras on Thursday, December 21, 2017