( غیــر مطبــوعــہ ) حاصلِ گردشِ افلاک سمَجھتا ہے…
حاصلِ گردشِ افلاک سمَجھتا ہے مجھے
میں تو حیراں ہوں کہ تو خاک سمَجھتا ہے مجھے
شام ہوتے ہی سماتا ہے بدن میں آ کر
میرا سایہ مِری خوراک سمَجھتا ہے مجھے
جانے کس درد کی وہ مجھ کو دوا جانتا ہے
جانے کس زہر کا تریاق سمَجھتا ہے مجھے
مجھ کو ہر شر سے سَـبُک دوش بتاتی ہے یہ روح
اور یہ جسم ہَوس ناک سمجھتا ہے مجھے
اُس بگُولے کے تیقُّن پہ تمہیں شک ہے کوئی
جو رہینِ خس و خاشاک سمَجھتا ہے مجھے
اُوڑھتا ہے مِری مٹّی کو’ بچھاتا ہے کبھی
وقت احساس کی پوشاک سمَجھتا ہے مجھے
سب سمَجھتے ہیں ضرورت کے مطابق مجھ کو
کون انسان کے مصداق سمَجھتا ہے مجھے
خشک آنکھیں بھی سمجھ لیتی تھی پہلے’ آزرؔ !
اب فقط دیدہء نم ناک سمَجھتا ہے مجھے
( دلاورعلی آزرؔ )