ناصر کاظمی کے 50اشعار۔۔۔ انتخاب (حسنین حیدر) ریختہ…
1۔
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
2۔
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دوں گا
3۔
خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی
اہل تحریر کا ہنر دیکھو
4۔
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
5۔
دیوانگئِ شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
6۔
یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں
7۔
فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے
8۔
میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیر کوفہ و رَے نہیں
9۔
اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی
10۔
ناصر سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے
11۔
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
12۔
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوںکی زبانی
13۔
جوترا محرم ملا اس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتہ کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ
14۔
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
15
جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادیں
16۔
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ
17۔
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
18۔
بستی والوں سے چھپ کر
رو لیتے ہیں پچھلی رات
19۔
کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
20۔
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
21۔
پھر آج ترے دروازے پر بڑی دیر کے بعد گیا تھا مگر
اِک بات اچانک یاد آئی ۔۔۔ میں باہر ہی سے لوٹ آیا
22۔
لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
23۔
راز نیازِ عشق میں کیا دخل ہے ترا
ہٹ فکرِ روزگار ۔۔ غزل کہہ رہا ہوں میں
24۔
گزر ہی جائے گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کے تیرا درد ہے مرا ہم ساز
25۔
تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
26۔
خدا وہ دن بھی دکھاۓ تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی
27۔
تو جو ناگاہ سامنے آیا
رکھ لیے میں ہاتھ آنکھوں پر
28۔
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن
29۔
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
30۔
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برباد ۔۔ دن ڈھلے آئے
31۔
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی
32۔
اب تو جھونکے سے لرز اُٹھتا ہوں
نشہء خوابِ گراں تھا پہلے
33۔
یوں ترے حسن کی تصویر غزل میں آئے
جیسے بلقیس ۔۔۔ سلیماں کے محل میں آئے
34۔
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
35۔
سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے
چاندنی کا لباس کیوں پہنا
36۔
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا
37۔
ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار
اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی
38۔
اب دل میں کیا رہا ہے، تری یاد ہو تو ہو
یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو
39۔
گھُٹ کے مر جاؤں گا اے صبحِ جمال
میں اندھیرے میں ہوں، آواز نہ دے
40۔
اسیرو کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
41۔
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
42۔
یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے
43۔
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
44۔
غمِ فراق میںکچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
45۔
رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصر
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے
46۔
بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے
47۔
سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آگیا
لے کے زرد پیرہن بسنت آگئی
48۔
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی
49۔
ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہء سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو
50۔
یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی
۔۔۔۔۔۔