اردو کے مایہ ناز شاعر گلزار جو خود اس ذرہ برابر زم…
…..
مجھے واہگہ پہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والے بشن سے جا کر ملنا ہے
سنا ہے وہ ابھی تک سوجے پیروں پر کھڑا ہے
جس جگہ منٹو نے چھوڑا تھا اسے
وہ اب تک بڑبڑاتا ہے
”اپڑ دی گڑ گڑ دی مونگ دی دال دی لالٹین“
پتہ لینا ہے اس پاگل کا
اونچی ڈال پر چڑھ کر جو کہتا ہے
خدا ہے وہ اسے فیصلہ کرنا ہے کس کا گاؤں کس کے حصے میں آئے گا وہ کب اترے گا
اپنی ڈال سے اس کو بتانا ہے
ابھی کچھ اور بھی دل ہیں کہ جن کو بانٹنے کا، کاٹنے کا کام جاری ہے وہ بٹوارہ تو پہلے تھا
ابھی کچھ اور بٹوارے باقی ہیں
مجھے واہگہ پہ ٹوبہ ٹیک سنگھ والے بشن سے ملنا ہے
خبر دینی ہے اس کے دوست افضل کو
وہ لہنا سنگھ ودھاوا سنگھ وہ” بھین امرتی وہ سارے قتل ہو کر اس طرف آئے تھے
ان کی گردنیں سامان ہی میں لٹ گئیں پیچھے ذبح کردے وہ بھوری اب کوئی لینے نہ آئے گا
وہ لڑکی اک انگلی جو بڑی ہوتی تھی ہر بارہ مہینے میں وہ اب ہر اک برس اک پوٹا پوٹا گھٹتی رہتی ہے
بتانا ہے کہ سب پاگل پہنچے نہیں اپنے ٹھکانوں پر
بہت سے اس طرف بھی ہیں بہت سے اس طرف بھی ہیں