خدا وہ ذاتِ واحد وہ حسنِ یکتا کہ شمع پروانۂ یقیں ہ…
وہ ذاتِ واحد وہ حسنِ یکتا کہ شمع پروانۂ یقیں ہے
جو ذرہ ذرہ سے جلوہ افشاں تو ریشہ ریشہ میں جاگزیں ہے
نقابِ شام خزاں الٹ دے تو داغِ لالہ ، سرشکِ شبنم
حجابِ صبحِ بہار اٹھاوے تو بوۓ گل روح انبگیں ہے
کہیں دل افروز لالہ و گل کہیں جگرسوزدیدہ و دل
کہیں نسیمِ بہارِ ہستی کہیں دمِ مرگ آفریں ہے
غرض میسر جوچشمِ دل ہوتواس کاجلوہ کہاں نہیں ہے
ڈاکٹرشانتی سروپ بھٹناگر 21 جولائ 1894ء میں ‘بہیرہ’ شاہ پور پنجاب میں ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہوۓ ۔ ابتدائ تعلیم دیانند اینگلو ویدک ہائ اسکول سکندرآباد بلند شہر میں ہوئ ۔ 1911ء میں آپ نے دیال سنگھ کلج لاہور میں داخلہ لیا اور 1913ء میں انٹرمیڈیٹ میں درجہ اول سے کامیابی حاصل کی ۔ آپ دیال سنگھ کالج کی سرسوتی اسٹیج سوسائٹی کے سرگرم کارکن رہے اوراس کےلۓ اردو میں ایک ڈرامہ ‘ کراماتی’ لکھا جس کے انگریزی ترجمہ پر آپ کو انعام اور سوسائٹی کو 1912ء کے بہترین ڈرامہ کا مڈل ملا ۔ 1916ء میں فارمن کرسچن کالج لاہور سے فزکس سے بی یس سی اور 1919ء میں کیمسٹری سے ایم ایس سی کیا ۔
یکم جنوری 1955ء میں ساٹھ سال کی عمر میں آپ نے دہلی میں انتقال کیا ۔
آپ کے انتقال پرماہنامہ ‘ معارف ‘ اعظم گڈہ کے شمارہ جنوری 1955ء میں ایک تعزیتی نوٹ شائع ہوا تھا
سر شانتی سروپ بھٹناگر سائنس کے عالم ہونے کے ساتھ اردو کے خوش مذاق ادیب و شاعر بھی تھے، جس کا اجتماع کم ہوتا ہے ، یہ ذوق ان کو اپنے نامور نانا سے ورثہ میں ملا تھا ، وہ غالبؔ کے مشہور و محبوب شاگرد منشی ہر گوپال تفتہؔ کے نواسے تھےجن کو غالب محبت میں مرزا تفتہ کہا کرتے تھے ، مکاتیبِ غالبؔ میں ان کے نام بہت سے خطوط ہیں ، سر شانتی اردو شاعری کا بڑا ستھرا مذاق رکھتے تھے ان کے کلام کا مجموعہ ‘لاجونتی’ کے نام سے عرصہ ہوا شائع ہوچکا ہے اردو زبان سے ان کو بڑی محبت تھی
نگار اکتوبر 1946ء کے شمارہ میں آپکے شعری مجموعہ ‘ لاجونتی ‘ پر نیاز فتح پوری نے تبصرہ کیا تھا جو ذیل میں پیش ہے
حیرت ہے وہ شخص جس نے اپنی تمام عمر علم الکیمیا کی خشک تحقیقات میں بسر کردی اور جس نے ادب کو کبھی فن کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا ، کیونکر اتنے اچھے ، اس قدرصحیح اور ایسے دلسوز اشعار لکھ سکتا ہے ۔ سب سے پہلی نظم اس مجموعہ میں ”خدا’ کے عنوان سے نظر آتی ہے اورجس وقت میں نے اس کو پڑھا تو حیران رہ گیا لیکن جبب سرسپرو کے مقددمہ پڑھنے کے بعد بہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب منشی ہرگوپال تفتہؔ کے نواسے ہیں جو غالبؔ کےبڑے مخلص دوست تھے ، تو حیرانی جاتی رہی – کیا کوئ شخص اس کو پڑھ کر یہ یقیں کرسکتا ہے کہ یہ کسی ہندو سائنس داں کی نظم ہے ۔۔
اس مجموعہ میں پچاس نظمیں ہیں اور سب اپنے اپنے رنگ میں قابلِ داد ہیں ، لیکن ان کی وہ نظم جو انہوں نے اپنی رفیق حیات کی جدائ پر لکھی ہے، بے پناہ ہے ۔ اس کا عنوان ہے ‘آجاؤ’۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :-
میں جاگتا ہوں کہ شاید کہیں سے آجاؤ
یہیں پہ کھوئ گئ تھیں یہیں سے آجاؤ
نگاہیں ڈھونڈتی پھرتی ہیں گوشہ گوشہ میں
نہیں زمیں پہ تو عرشِ بریں سے آجاؤ
سپردخاک اگر ہوگئیں تو کیا پروا
بشکلِ لالہ وگل ہی زمیں سے آجاؤ
چھپوگی پردۂ رنج و الم میں یوں کب تک
نکل کے تم دل اندوہگیں سے آجاؤ
ستم ہے مجھ کو پتہ تک نہیں گئ ہو کہاں
غرض جہاں بھی ہو ِللٰہ وہیں سے آجاؤ
.
بشکریہ وشیم سیّد