بیکل اتساہی کی وفات December 03, 2016 اردو کے مع…
December 03, 2016
اردو کے معروف اور طرح دار شاعر بیکل اتساہی اترپردیش کے قصبے بلرام پور میں سنہ 1928 میں پیدا ہوئے تھے۔ خیال رہے کہ معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کا تعلق بھی بلرام پور سے تھا۔
بیکل اتساہی کا اصل نام محمد شفیع خان تھا۔ پہلے وہ بیکل وارثی بنے پھر بیکل اتساہی بن گئے۔
ان کے بیکل اتساہی بننے کا واقعہ قدرے سیاسی ہے۔ انھوں نے انڈیا کے پہلے وزیر اعظم کے سامنے ایک نظم ‘کسان بھارت کا’ پڑھی اور اس قدر جوش کے ساتھ پڑھی کہ جواہر لال نہرو یہ کہہ اٹھے کہ ‘یہ ہمارا اُتساہی (جوشیلا) شاعر ہے’ اور اس کے بعد بیکل وارثی بیکل اتساہی بن گئے۔
وہ کانگریس کے رکن رہے اور اندرا گاندھی کے معتمدین میں شامل رہے۔ انھیں ایوان بالا کا رکن نامزد کیا گیا اور سنہ 1976 میں انھیں ادب کی خدمات کے لیے اعلیٰ شہری اعزاز ‘پدم شری’ سے نوازا گیا۔
بیکل اتساہی کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
بیچ سڑک اک لاش پڑی تهی اور یہ لکها تها
بهوک میں زہریلی روٹی بهی میٹهی لگتی ہے
لباس قیمتی رکھ کر بھی شہر ننگا ہے
ہمارے گاؤں میں موٹا مہین کچھ تو ہے
لیے کائنات کی وُسعتیں ہے دیارِ دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
قلم سے نور تو کاغذ سے نکہتیں پھوٹیں
یہ حرف و لفظ، یہ حسن کلام آپ کے نام
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا