وحی —————– عجیب موسم تھا وہ بھی، جب کہ …
—————–
عجیب موسم تھا وہ بھی، جب کہ
عبادتیں کورچشم تھیں
اور عقیدتیں اپنی ساری بینائی کھو چکی تھیں
خُود اپنے ہاتھوں سے ترشے پتھر کو دیوتا کہہ کے
خیر و برکت کی نعمتیں لوگ مانگتے تھے!
مگر وہ اِک شخص
جو ابھی اپنے آپ پر بھی نہ منکشف تھا
عجیب اُلجھن میں مبتلا تھا
یہ وہ نہیں ہیں ،وہ کون ہو گا کا کربِ بے نام چکھ رہا تھا!
سواپنے ان نارسادُکھوں کی صلیب اُٹھائے
غموں کی نا یافت شہریت کو تلاش کرتے
وہ شہرِ آذر سے دُور
اپنے تمام لمحے
حرا کے غاروں کے خواب آساسکوت کو سونپنے لگا تھا
یہ سوچ کا اعتکاف بھی تھا
اور ایک اَن دیکھی رُوحِ کُل کے وجود کا اعتراف بھی تھا
وہ رات بھی ارتکاز کی ایک رات تھی
جبکہ لمحہ بھرکو
فضا پہ سناٹا چھا گیا
اور ہواؤں کی سانس رُک گئی تھی
ستارہ شب کے دل کی دھڑکن ٹھہر گئی تھی
گریزپا ساعتیں تحیر زدہ تھیں
جیسے وجود کی نبض تھم گئی ہو!
یکایک اِک روشنی جمال و جلال کے سارے رنگ لے کر
فضا میں گونجی
’’پڑھو!‘‘
’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘
’’پڑھو!‘‘
’’میں پڑھ نہیں سکوں گا!‘‘
’’پڑھو!‘‘
’’(مگر)میں کیا پڑھوں ؟‘‘
پڑھو___تم اپنے (عظیم) پروردگار کا نام لے کے
جو سب کو خلق کرتا ہے
جس نے انسان کو بنایا ہے منجمد خون سے
پڑھو (کہ) تمھارا پروردگار بے حد کریم ہے
(اور) جس نے تم کو قلم سے تعلیم دی
اُسی نے بتائیں انسان کو وہ باتیں
کہ جن کو وہ جانتا نہیں تھا……..‘‘
فضائے بے نطق جیسے اِقراء کا ورد کرنے لگی تھی
وہ سارے الفاظ، جو
تیرگی کے سیلاب میں کہیں بہہ چکے تھے
پھر روشنی کی لہروں میں
واپسی کے سفر کا آغاز کر رہے تھے
دریچہ بے خیال میں
آگہی کے سُورج اُتر رہے تھے
اس ایک پل میں
وہ میرا اُمی ّ
مدینۃالعلم بن چکا تھا
پروین شاکر