سِتَم کا عدُو مُستحق ہو گیا مِرا دِل سراپا قلق ہو …
مِرا دِل سراپا قلق ہو گیا
سُنا نے چلے تھے، اُنھیں حالِ دِل !
نظر ملِتے ہی رنگ فق ہو گیا
جو کچھ بچ رہا تھا مِرا خونِ دِل
وہی آسماں پر شَفق ہو گیا
چُھپائے ہُوئے تھے تِرا رازِ عِشق
مگر، اب تو سِینہ بھی شق ہو گیا
مِری موت سُن کر، کیا اُس نے ضبط
مگر رنگ چہرے کا فق ہو گیا
.
جگؔرمُراد آبادی