دو غزلہ جونؔ ایلیا میں سہُوں کربِ زِندگی کب تک رہ…
جونؔ ایلیا
میں سہُوں کربِ زِندگی کب تک
رہے آخر تِری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دُوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تِری
اب فقط تِری یاد بھی کب تک
مَیں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مُجھ کو دُنیا پُکارتی کب تک
خیمہ گاہء شمال میں آخر
اُس کی خوشبُو رچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جِس کی ٹُوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزُو ہُوئی کب تک
دوزخِ ذات باوجود تِرے
شبِ فُرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہُوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک
نہیں معلُوم میرے آنے پر
اُسکے کُوچے میں لُو چلی کب تک۔۔۔!
۔۔۔۔۔
خُون تھُوکے گی زِندگی کب تک
یاد آئے گی اب تِری کب تک
جانے والوں سے پُوچھنا یہ صبا
رہے آباد دِل گلی کب تک
ہو کبھی تو شرابِ وصل نصیب
پیۓ جاؤں میں خُون ہی کب تک
دِل نے جو عُمر بھر کمائی ہے
وہ دُکھن دِل سے جائے گی کب تک
جِس میں تھا سوزِ آرزُو اُس کا
شبِ غم وہ ہَوا چلی کب تک
بنیِ آدم کی زِندگی ہے عذاب
یہ خُدا کو رُلائے گی کب تک
حادثہ زِندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بَھلا خوشی کب تک
ہے جہنّم جو یاد اب اُس کی
وہ بہشتِ وجُود تھی کب تک
وہ صبا اُس کے بِن جو آئی تھی
وہ اُسے پوچھتی رہی کب تک
میر جونی! ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھیریں گے آپ ہی کب تک
حالِ صحنِ وجُود ٹھیرے گا
تیرا ہنگامِ رُخصتی کب تک۔۔۔!