ممکن ہے اس راہ میں تجھ کو تپتی ریت پہ چلنا پڑے دی…
دیکھ زباں پر لفظ نہ آئے .دیکھ جبیں پر بل نہ پڑے
سورج مرشد! تھوڑی کمی بس تھوڑی نمی رہ جاتی ہے
مجھ پر اپنی نظریں رکھنا جب تک کاغذ جل نہ پڑے
یکدم جلنا کام ہی کیا ہے’ سوختنی ‘ افروختنی
بات تو جب ہے جب تجھ کو بھی دھیمی آنچ میں گلنا پڑے
سسی تجھ کو جانے کب سے یہ ویرانہ ڈھونڈتا ہے
کیا ممکن ہے عشق چلے اور اس کی راہ میں تھل نہ پڑے
عمر کٹی جاتی ہے لیکن راہگزر کٹتی ہی نہیں
کون سے یاں دریا نہیں آئے کون سے یاں جنگل نہ پڑے
جلتی آنکھو سو جاؤ کچھ دیر کو لیکن شرط یہ ہے
دیکھ رہا ہوں خواب جو اس کا اس میں کوئی خلل نہ پڑے
اے یخ بستہ ہجر کدے کے لمبی راتوں والے دن
نیند تجھے اک رات نہ آئے چین تجھے اک پل نہ پڑے
(سعود عثمانی)