— — رفیعہ شبنم عابدی — — جنگ سے نکلوانے کا الز…
جنگ سے نکلوانے کا الزام نہ دینا
جنت جسے کہتے ہیں مرے زیرِ قدم ہے
میں ہوں ترا ناموس، تو ملبوس ہے میرا
میں ایک صحیفہ ہوں تُو مانند قلم ہے
— — — — — — — — — — — –
میں کہ ایک عورت ہوں
زندگی کی عظمت ہوں
مجھ سے نسلِ آدم ہے
اعتبارِ عالم ہے
میں گلاب کی خوشبو
میں شباب کا جادو
میں ہوا بھی، بادل بھی
میں گھٹا بھی، چھاگل بھی
میں ہوں ایک تِتلی بھی
اِک کڑکتی بجلی بھی
میں ہوں اک حسین جگنو
شاخِ گُل مِرے بازو
میں ہوں اِک شرارا بھی
روشنی کا دھارا بھی
آفتاب کی گرمی
ماہ تاب کی خنکی
میں چمک ستاروں کی
جان ہوں نظاروں کی
پھول بھی ہوں خنجر بھی
موم بھی ہوں پتھر بھی
گیت بھی، غزل بھی میں
موم بھی ہوں پتھر بھی
گیت بھی، غزل بھی میں
مرمریں محل بھی میں
حرف کی نوا میں ہوں
ساز کی صدا میں ہوں
کائنات مجھ سے ہے
یہ حیات مجھ سے ہے
میں کہ ایک عورت ہوں
شاہ کارِ فطرت ہوں
……..
ایسے کتنے افسانے
مجھ کو اپنے بیگانے
روز ہی سناتے تھے
دل مرا لبھاتے تھے
جن کو سن کے جانے کیوں
لفظ چن کے جانے کیوں
جھوم جھوم جاتی تھی
خود میں کب سماتی تھی
آج بربریت نے
سرزمینِ سورت نے
نفرت و عداوت نے
مرد کی شقاوت نے
آئینہ دکھایا ہے
نیند سے جگایا ہے
سوچتی ہوں رہ رہ کر
ساری ذلتیں سہہ کر
میں کتنی سستی ہوں
بے وجود ہستی ہوں
تاجروں کی پونجی ہوں
منڈیوں میں بکتی ہوں
اشتہار میں، مَیں ہوں
کاروبار میں، مَیں ہوں
محفلوں میں، مَیں ہوں
گھنگھروؤں میں بجتی ہوں
میں کہ ایک عورت ہوں
بے حِسوں کی غیرت ہوں
……
میں زمین جیسی ہوں
پھل بھی دوں تو مٹی ہوں
ایسی دیوداسی ہوں
مندروں میں لٹتی ہوں
پاکباز ہو کر بھی
دل نواز ہو کر بھی
آزمائی جاتی ہوں
میں جلائی جاتی ہوں
سانس سانس کٹتی ہوں
بھائیوں میں بٹتی ہوں
دانٛو پر بھی لگتی ہوں
رات دن سلگتی ہوں
میری بے ردائی کی
اپنی بے حیائی کی
کھینچتے ہیں تصویریں
کر کے لوگ تدبیریں
ہاں، یہی تو مذہب ہے
دھرم کا یہی ڈھب ہے
میری مانگ سُونی ہے
میری کوکھ زخمی ہے
تار تار آنچَل ہے
بکھرا بکھرا کاجل ہے
ٹکڑے ٹکڑے کنگن ہے
کیسا رکشا بندھن ہے
میں کہ ایک عورت ہوں
کتنی بے حقیقت ہوں
…..
اے سخن کے دیوانو
فکر و فن کے دیوانو
شاعرو، صدا کارو
بُت گرو، اداکارو
نقش اتارنے والو
دل کو ہارنے والو
حُسن کے ثنا خوانو
آؤ مجھ کو پہچانو
میں حسیں نہیں کچھ بھی
دل نشیں نہیں کچھ بھی
اک کریہہ منظر ہوں
عبرتوں کا دفتر ہوں
اسفلوں کا نغمہ ہوں
شیطنت کا لقمہ ہوں
میں نہیں کوئی بیٹی
اور نہ ہی بہن کوئی
کب کسی کی دلہن ہوں
بے کسی کا مدفن ہوں
مجھ کو ماں نہیں کہنا
ہو سکے تو چُپ رہنا
آنسوؤں کی بارش ہے
بس یہی گذارش ہے
اے منافرت زادو
مجھ کو اِک کفن لادو
میں کہ ایک عورت ہوں
ننگِ آدمیت ہوں
……
بشکریہ اریبہ خان