[ad_1]
نواب صاحب وزیر خانم کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ”تم نے پورے مہتاب کی طرح اس گھر کو روشن کر رکھا ہے اندھا ہی ہو جو تمھاری خوبیاں نہ دیکھ پائے ۔ ہمارا بس چلے تو تمھیں چادر مہتاب کی طرح اوڑھ کر سو جائیں۔“ ”سرکار نے مجھے چاند کہا، میری توقیر کی۔ لیکن عالی جاہ تو شمس ریاست اور مہر امارت ہیں، سورج کے آگے چاند کی کچھ حیثیت نہیں۔ عالی جاہ نے ضرور سنا ہوگا، نور القمر مستفید من الشمس۔ سورج اپنی منزل میں چلا جائے گا اور چادر مہتاب لپٹی لپیٹی دھری رہ جائے گی۔“ ”بھئی واللہ۔ آپ کے فقرے کیا ہیں، فقرہ بازیاں ہیں۔ کہیں ان فقروں میں آپ ہمیں اڑا ہی نہ دیں۔“نواب نے ہنس کر کہا۔ ”سرکار ہم تو خود پرِ کاہ ہیں، حضور کی نسیم شفقت کے منتظر ہیں کہ ہمیں اڑا لے جائے اور آسودہ منزل کر دے ۔“ ”اور منزل کہاں ہے آپ کی، یہ تو بتایا نہیں آپ نے ۔“ ”پرکاہ کی منزل کیا، تروتازہ ہو تو گلدستہ، خشک اور خزاں رسیدہ ہو تو گلخن۔“ ”لیکن آپ نہ پرکاہ ہیں نہ خزاں رسیدہ۔ ابھی تو آپ پر ٹھیک سے بہار آئی ہی نہیں۔“وزیر نے مسکرا کر سر جھکا لیا اور طالب آملی کا شعر پڑھا ز غارت چمنت بر بہار منت ہاست کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند (ترجمہ: تیرا چمن کو غارت کرنا بہار پر بے شمار احسانات کا سبب ٹھہرا ہے ۔ کیونکہ پھول تیرے ہاتھ میں آ کر شاخ پر سے زیادہ تازہ ہو جاتا ہے ۔)
اردو کا شاہکار ناول “کئی چاند تھے سر آسماں” سے اقتباس
احمد محفوظ
Bergabung di Probola situs judi bola terbesar dengan pasaran terlengkap
bergabunglah bersama juarabola situs judi bola resmi dan terpercaya hanya di idn poker terpercaya 2022
daftar sekarng di agen situs slot online paling baik se indonesia