محمد مصطفٰے معصوم ہاشمی کا قلمی نام نوشاد نوریؔ تھ…
اب کوئی چارہ نہیں قطع محبت کے سوا
اب کوئی راہ نہیں جنگ مسلح کے بغیر
اب کوئی ربط نہیں ، جذبۂ نفرت کے سوا
نوشاد کی نظموں میں جذبے کی شدت اور فکر کی رسائی کے ساتھ ساتھ گہری حسا سیت بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال نظم ’’ تاریخ کا دیباچہ ‘‘ ہے۔
بیتے ہوئے ادوار کے ہم بھی نگراں ہیں
نادیدہ زمانے کی طرف ہم بھی رواں ہیں
اس دور المناک میں ہم چشم و زباں ہیں
نوشاد نوریؔ نے نظموں کے علاوہ کچھ غزلیں بھی کہیں ہیں۔ لیکن وہ ان غزلوں کی اشاعت نہیں چاہتے تھے ۔ان کی وفات کے بعد نوشادنوری کی ایک غزل پہلی بار شائع ہوئی ۔ اس غزل کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
تعلق ایسا بندھن ہے جو توڑا بھی نہیں جاتا
اسے گر چھوڑنا چاہیں تو چھوڑا بھی نہیں جا تا
بدل دیتے ہیں بیداری میں رخ اپنے خیالوں کا
مگر سوتے میں رخ خوابوں کا موڑا بھی نہیں جاتا
نہ اب یارائے ہجرت ہے نہ تاب دشت پیمائی
یہی مشکل ہے اب زنداں کو چھوڑابھی نہیں جا تا
ان کی نظموں میں غزل اور غنائیت کی پوری فضا ہوتی ہے۔ ان کی ایک نظم ’’ وارفتگی ‘‘ کے درج ذیل اشعار جدید غزل سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔
روزن در کو کھلا رکھنے کا مو سم آیا
ٹوٹتی رات میں کب کس کا پیام آجائے
نیم شب چھپتا چھپاتا ہوا سناٹے میں
کس طرف سے کوئی آوارہ خرام آجائے
نطق کو مہر کرو ، ہونٹ کو سی کر رکھو
بارے لب پر کوئی بے ساختہ نام آجائے
ان کی نظم ’’ روایت ہے ‘‘ بنگلہ دیش میں اردو شاعری کے نئے سفر کی نشاندہی کرتی ہے۔
میں زمانے پہ صحیفے کی طرح اترا ہوں
روشنی مجھ سے تفکر کو ودیعت ہو گی
میرے مخطوطہٗ کمیاب کو محفوظ رکھو
اس حوالے کی مؤرخ کو ضرورت ہو گی
اس کٹھن دور کی نا گفتہ صداقت لو گو
میری ہی ذات گرامی سے روایت ہوگی
اپنی آخری عمر میں وہ کینسر کے مرض میں مبتلا رہے اور ۷۵ سال کی عمر میں ۱۸ جولائی سن ۲۰۰۰ میں ڈھاکے میں انتقال کیا۔