( غیــر مطبــوعــہ ) کہانیوں کی ابتدا ، ” بہت د…
کہانیوں کی ابتدا ، ” بہت دنوں کی بات ہے…”
گمان تھا سخُن سرا ، بہت دنوں کی بات ہے
میں خواب کے کبوتروں سے کھیلتا تھا رات بھر
اب اٹھ کے پوچھتا ہوں : کیا بہت دنوں کی بات ہے؟
وہ جل پری کی بات پر سمُندروں کا قہقہہ
وہ خواب تھا کہ واقعہ ، بہت دنوں کی بات ہے
بُھلا کے روز بیٹھتا ہوں ناشتے کی میز پر
حکایتوں کا ذائقہ ، بہت دنوں کی بات ہے
کبھی ہماری آنکھ میں ہزار مہر و ماہ تھے
اب آسماں کا فاصلہ’ بہت دنوں کی بات ہے
نکل گیا بس ایک پل میں وقت کے حصار سے
میں خود کو کیسے روکتا’ بہت دنوں کی بات ہے
درخت سارے دم بَہ خود تھے تتلیوں کی مَوت پر
خدا بھی دیکھتا رہا ‘ بہت دنوں کی بات ہے
ابھی یہ درد کا شجر ، ہمارے دل میں سبز ہے
ہے نخلِ جاں ہرا بھرا ، بہت دنوں کی بات ہے
وہ جس کی چاندنی میں رقص کر رہی تھی زندگی
وہ ماہ تاب جل بجھا ‘ بہت دنوں کی بات ہے
بہت دنوں سے خیمہ زن ہے آدمی زمین پر
اور آسمان پر خدا ، بہت دنوں کی بات ہے
( عـــابِـدؔ رضـــا )