خواجہ الطاف حسین حالی – حافظ لدھیانوی – اصغر گونڈو…
خواجہ الطاف حسین حالی
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں
بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
…….
حافظ سراج الحق – حافظ لدھیانوی
واقف مزاجِ یار سے ہے چارہ گر کہاں
دل میں نہ درد ہو تو زباں میں اثر کہاں
…….
اصغر گونڈوی
گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں
خون ہے کچھ جما ہوا قلب کہاں جگر کہاں
ہے یہ طریق عاشقی چاہیئے اس میں بے خودی
اس میں چناں چنیں کہاں اس میں اگر مگر کہاں
زلف تھی جو بکھر گئی رخ تھا کہ جو نکھر گیا
ہائے وہ شام اب کہاں ہائے وہ اب سحر کہاں
کیجیے آج کس طرح دوڑ کے سجدۂ نیاز
یہ بھی تو ہوش اب نہیں پاؤں کہاں ہے سر کہاں
ہائے وہ دن گزر گئے جوشش اضطراب کے
نیند قفس میں آ گئی اب غم بال و پر کہاں
ہوش و خرد کے پھیرے میں عمر عزیز صرف کی
رات تو کٹ گئی یہاں دیکھیے ہو سحر کہاں