ایک زمین احمد رضاؔ خان بریلویؒ سید نصیر الدین نصیر…
احمد رضاؔ خان بریلویؒ
سید نصیر الدین نصیرؔؒ
۔۔۔۔۔
وہ سُوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دِن اے بہار پھرتے ہیں
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کئے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
اُن کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغِ مزار پر قُدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اُس گلی کا گدا ہُوں مَیں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہے جان کیا نظر آئے
کیوں عدُو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھُوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قُدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گِردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافِل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے سے نہ جا مسافر سُن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سُنسان بَن ہے رات آئی
گُرگ بہرِ شِکار پھرتے ہیں
نفس پہ کوئی چال ہے ظالم
جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں۔۔۔!
احمد رضاؔ خان بریلویؒ
۔۔۔۔۔
سینکڑوں بے قرار پھرتے ہیں
طالبِ وصلِ یار پھرتے ہیں
ان کے مُشتاق اُن کے دیوانے
ہر طرف بے شُمار پھرتے ہیں
دھُوم بھی ہے دُہائی بھی اُن کی
کرکے سولہ سِنگھار پھرتے ہیں
پھول کیا سر اُٹھا کے بات کریں
باغ میں گُل عذار پھرتے ہیں
نام سُن کر مِرا وہ کہنے لگے
ایسے ویسے ہزار پھرتے ہیں
مُجھ کو ہو خاک اِعتِبار اُن پر
قول سے بار بار پھرتے ہیں
چاند سُورج ہیں اُن کے وارفتہ
رات دِن بے قرار پھرتے ہیں
اُن کے کوچے میں ایک آدھ نہیں
پاسباں تین چار پھرتے ہیں
جلوہء یار کی تمنّا میں
لوگ دیوانہ وار پھرتے ہیں
اُن کی مَحفِل سے لَوٹنے والے
لُوٹ کر ہر بہار پھرتے ہیں
یہ ہے توہینِ مےکدہ ساقی
تشنہ لب میگُسار پھرتے ہیں
اے نصیؔر اُن کی چاہ میں لاکھوں
کھو کر صبر و قرار پھرتے ہیں۔۔۔!
سید نصیر الدین نصیرؔؒ
……
بشکریہ محبت خان