دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے میر تقی میر دیکھ تو …
میر تقی میر
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
خانۂ دل سے زینہار نہ جا
کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے
نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا
شور اک آسماں سے اٹھتا ہے
لڑتی ہے اس کی چشم شوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے
سدھ لے گھر کی بھی شعلۂ آواز
دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
یوں اٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
……..
ربط کیا جسم وجاں سے اٹھتا ہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے
تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے
آگ پہلے ہمِیں نے سُلگائی
اب دُھواں ہر مکاں سے اٹھتاہے
دل بھی سینے میں اب نہیں تابشؔ
درد پھر یہ کہاں اٹھتا ہے
تابش دہلوی
…….
بیٹھ کر وہ جہاں سے اُٹھتا ہے
ایک فِتنہ وہاں سے اُٹھتا ہے
اُس کو جا بیٹھنا جہاں ہوں وے
کب یہ دِل دِل براں سے اُٹھتا ہے
نالہ کرتی ہے جِس گھڑی بُلبُل
شُعلہ اِک آشیاں سے اُٹھتا ہے
منہ کو مت کھول ورنہ عالم کے
پردہ رازِ نِہاں سے اُٹھتا ہے
بیٹھتا ہے وہ جنگجُو جس جا
لڑ کے آخِر وہاں سے اُٹھتا ہے
شورِ محشر ہے جِس کے تئیں
میرے شور و فُغاں سے اُٹھتا ہے
کُشتہءِ عِشق یوں نہیں ٹلتا
مر کے کُوۓ بُتاں سے اُٹھتا ہے
جو کہ پتھر سا جم کے بیٹھے ہے
کب تیرے آستاں سے اُٹھتا ہے
مصحفیؔ مت بہت رقیب کو چھیڑ
وہ کوئ درمیاں سے اُٹھتا ہے۔۔۔!
غلام ہمدانی مصحفیؔ