مقابلے پہ مرے خود مرے سِوا کوئی ہے؟ – عِرفانؔ ستّار
مقابلے پہ مرے خود مرے سِوا کوئی ہے؟
نبَرد ِ زات سے بڑھ کر بھی معرکہ کوئی ہے؟
کوئی تو ہے’ مجھے میرے خلاف کرتا ہُوا
سوال یہ ہےکہ میں ہوں یا دوسرا کوئی ہے
تماشا ختم ہُوا تو کوئی نہ ہوگا یہاں
یہ لوگ دیکھنے والے ہیں، سوچتا کوئی ہے؟
سنا یہ ہے کہ ہے سب کے لیے کوئی نہ کوئی
تو یعنی میرے لیے بھی ہے کوئی،کیا کوئی ہے؟
وہ مجھ بہار سے گزرا تو کھِل اٹھا کیسا
کوئی بتائے کہ ایسا ہرا بھرا کوئی ہے؟
طبیب ِ عشق ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے بتا
مریض ہوں گے، مگر مجھ سا مبتلا کوئی ہے؟
کبھی کہا تو نہیں ہے کہ مجھ سا کوئی نہیں
اگر کہوں بھی تو اِس میں مبالغہ کوئی ہے؟
مِرے سکوت میں شامل، میرے سخُن میں شریک
حَسیں بہت ہیں، مگر اس مزاج کا کوئی ہے؟
جسے توجّہ سے وَحشت ہو، دلبری سے گریز
تمام شہر میں مجھ ایسا سَرپھرا کوئی ہے؟
سخن بغیر کبھی ہو سکا کوئی موجود؟
کوئی امام، پیمبر، ولی، خدا، کوئی ہے؟؟؟؟
وہ میرا یار ِ جنوں خیز کیوں کرے نہ غرور؟
کسی حَسین کا اُس سے مقابلہ کوئی ہے؟
ترا خیال تھا’ کوئی مجھے بچا لے گا
یہ دیکھ ۔۔ ڈوب رہا ہوں میں، چل دِکھا، کوئی ہے؟
یہ ہم ہی ہیں، کہ کسی کے اگر ہوئے، تو ہوئے
تمہارا کیا ہے، کوئی ہوگا، کوئی تھا، کوئی ہے
یہ دَور وہ ہے کہ جس میں کسی کا کوئی نہیں
کسی کا کوئی نہیں ہے، بتا : ترا کوئی ہے؟
جنوں کے ذکر پہ یاد آ گیا مجھے’ عرفانؔ !
کہاں چلا گیا، اُس کا اَتا پتا کوئی ہے؟
عِرفانؔ ستّار