کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے کچھ تیری توجہ…
کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے
اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ
کلیوں کے لیے قطرہُ شبنم بھی بہت ہے
ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا
سازش نگہ و دل کی منظم بھی بہت ہے
ہے رشتہُ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شئے
قائم یہ ہوا پر بھی ہے، محکم بھی بہت ہے
ڈھائے دلِ نازک پہ بہت اس نے ستم بھی
پھر لطف یہ ہے مجھ پہ وہ برہم بھی بہت ہے
یہ طُرفہ تماشہ ہے، کیا قتل بھی مجھ کو
اور پھر مرے مرنے کا انہیں غم بھی بہت ہے
پڑتے ہیں ستم گر کے ذرا وار بھی اوچھے
اور فضلئ بسمل میں ذرا دم بھی بہت ہے
(فضل احمد کریم فضلی)
المرسل:-: ابوالحسن علی ندوی(بھٹکلی)