غزلِ خطاطی۔۔صابر ظفر کی تخلیقات کا جہانِ نَو صابر…
صابر ظفر خطاطی کے فن سے اپنی والہانہ اُلفت اور رغبت کا اِظہار اپنے اشعار میں
روحِ اسلام کا یہ پوری طرح ہے عکاس
فنِ خطاطی اسی واسطے ہے اثباتی
……
پر سے لکھتا ہوں کہ اب یہ ہی قلم ہے میرا
لفظ طائر کی طرح اُڑتا ہو الگتا ہے
…….
دستِ خطاط قلم ہونے پہ روتا ہوں ظفر
کتنے ظالم ہیں جنہیں ظلم روا لگتا ہے
………
کاش تم آؤ کبھی جانب دارالتحریر
خوش خطی سیکھو قلم چلتا نظر آئے گا
……..
کسی خطاطِ محبت کا لکھا لگتا ہے
نون کو دیکھوں تو آویزہ ترا لگتا ہے
………
کچھ اور لکھنے کی نوبت پھر آتی کیسے ظفر
الف ہی لکھنا نہیں آیا ہم کو برسوں سے
………
ہے مری روح کے نزدیک ’’خطِ نستعلیق‘‘
بعض خط مُردہ ہیں اور مُردوں کا شمشان ہے گُم
……..
بعض الفاظ جو بُجھ جاتے ہیں مِٹ جاتے ہیں
بعض الفاظ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
……..
میں جو کھویا ہوا اعراب کے دفتر میں رہا
عمر بھر زیر، زبر، پیش کے چکر میں رہا
……..
اس طرح جذب رہا جزم کی صورت پیہم
گردشوں میں بھی سدا لفظ کے محور میں رہا
……
مجھ کو دیتے رہے تحریر میں واوین پناہ
مدّ و جزر آتے رہے پھر بھی میں ساگر میں رہا
………
کمپوز ہو رہے ہیں مضامین اب یہاں
لگنے لگے ہیں لوح و قلم خواب کی طرح
…….
سیاہی سوکھنے نہیں دیتا کوئی خطاط
اور ایک میں کہ مرے پاس ہے قلم نہ دوات
….
جو لفظ لکھتے ہوئے روشنائی سوکھتی ہے
میں ان کو اپنے لہو کی نمی سے لکھتا ہوں
……
زمینیں لفظوں کی زرخیز میرے واسطے ہیں
جہاں بھی چاہوں گا میں شاعری اُگا لوں گا
……
اگر ملا نہ کوئی اور رتجگے کے لئے
میں سوئے لفظوں کو پوری طرح جگا لوں گا
…..
دولتِ لوح و قلم میرے لئے کافی ہے
جمع کرتا ہوں جو رکھتا ہوں سبھی حرف پہ حرف
……
بھروں گا مٹھی میں الفاظ، جگنوؤں کی طرح
اور ان کو خالی فلک کی طرف اُچھالوں گا