زندگی بے ثبات ہے جاناں کیوں پھر اتنا ہم اس سے پیا…
کیوں پھر اتنا ہم اس سے پیار کریں
آج یا کل تو ہم کو جانا ہے
کیوں پھر اس کل پہ اعتبار کریں
آج ہم کیوں نہ زندگی کو جئیں
سب کو چاہیں سبھی سے پیار کریں
جو بھی کرنا ہے کیوں نہ آج کریں
دل کی دنیا پہ کیوں نہ راج کریں
کل کی مہلت ہمیں ملے نہ ملے
حسرتیں دل کی دل میں رہ جائیں
چھوڑیں نفرت کو پیار ہی بانٹیں
پھر یہ موقعہ ملے، ملے ‘ نہ ملے
کل اگر تُو ہو اور میں نہ رہوں
صرف پچھتاوے باقی رہ جائیں
دل جو ارماں لئے تڑپتا رہے
وقت ہاتھوں سے گر پھسل جائے
اور بس خاک باقی رہ جائے
تب بھی ہمدم مرے! خیال رہے
اپنی اس بے ثبات دنیا میں
ثبت اک نقش تھا تمہارے لئے
جس کو آیا کبھی زوال نہ تھا
جس کی کوئی کہیں مثال نہیں
جس کو آنا کبھی زوال نہیں
خالدہ جاوید خان
[ad_2]