مشکل زمین پر دو اساتذہ کی غزلیں (1 ) اس لب سے رس …
(1 )
اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم
تو کیوں ملے سبو سے قدح اور قدح سے ہم
ساقی نہ ہووے پاس تو کب جرعۂ شراب
شیشے کے لے گلو سے قدح اور قدح سے ہم
باقی رہے نہ بادہ تو اس کے عوض میں آب
لے خم کی شست و شو سے قدح اور قدح سے ہم
گردش پہ تیری چشم کی بحثے ہے ہم سے یار
دعوے کی گفتگو سے قدح اور قدح سے ہم
چشم اپنی ٹک دکھا دے اسے تو کہ آوے باز
اس بحث دو بہ دو سے قدح اور قدح سے ہم
بوسہ ترے دہن سے یہ ہنگام مے کشی
لے ہے کس آرزو سے قدح اور قدح سے ہم
پاتے ہیں میکدے میں بقاؔ نعمت شراب
خم سے سبو ، سبو سے قدح اور قدح سے ہم
بقا اللہ بقا
( میر و سودا کے ہمعصر جو دونوں متکبر شعراء کی تنقید اور نکتہ چینی کا شکار ہوئے )
(2)
سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم
سر خوش گلوں کی بو سے قدح اور قدح سے ہم
مکھڑے پہ ہے گلال جو اس مست ناز کے
رنگیں ہے عکس رو سے قدح اور قدح سے ہم
پیر مغاں کرم ہے جو سیراب ہو سکے
تیرے نم وضو سے قدح اور قدح سے ہم
بزم شراب رقص کی مجلس سے کم نہیں
ناچے ہے پرملو سے قدح اور قدح سے ہم
حلقے نہیں یہ زلف میں ساقی کی بلکہ ہے
وابستہ مو بہ مو سے قدح اور قدح سے ہم
حرمت لکھی شراب کی یاں تک کہ کھنچ رہا
زاہد کی گفتگو سے قدح اور قدح سے ہم
شیشہ جو پھوٹ جائے تو پھوٹے ولے نہ ہو
یارب جدا سبو سے قدح اور قدح سے ہم
وہ تفرقہ پڑا کہ بہت دور رہ گیا
دست پیالہ جو سے قدح اور قدح سے ہم
اے مصحفیؔ ہمیں تو گوارا نہیں یہ نیش
نوش اس کے لب سے چوسے قدح اور قدح سے ہم
غلام ہمدانی مصحفی