کلام ۔ داغ دہلوی زاہد کو روزِ حشر پڑی امتحان کی پ…
زاہد کو روزِ حشر پڑی امتحان کی
پیرِ مغاں نے خُلد میں جا کر دُکان کی
دم بھر میں پار آہ تھی اِک نوجوان کی
پیری کسی طرح نہ چلی آسمان کی
قاصد بھی اُس کو دیکھ کر دیوانہ ہو گیا
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
تعریفِ غیر سُن کے جو میں نے دیا جواب
اس بات پر خفا ہیں کہ ہم سے زبان کی
کس کو گلِہ نہیں تری بیداد و جَور کا
کیوں کر زبان بند ہو سارے جہان کی
سر کاٹ کر لگاتے گردن کے ساتھ پھر
کچھ رہ گئی ہے ان کو حوس امحان کی
گو جانتا ہوں جھوٹ مگر اس کو کیا کروں
کھاتے ہیں پیار سے وہ قسم میری جان کی
یہ شکوہٓ رقیب پہ مجھ کو مِلا جواب
لوگوں سے کیوں تُو نے میری خوبی بیان کی
آہٹ نہیں سُنی کہ مجھے دُور سے لیا
پسلی پھڑک اُٹھی تھی مگر پاسبان کی
روکا اِسی بہانے سے اظہارِ شوق پر
معلوم ہے ہمیں نہیں حاجت بیان کی
کب تک بنا بنا کے کہوں ماجراےٓ دل
فرمائشیں ہیں روز نئی داستان کی
کیا پھر بھی دل کے دینے میں اے داغؔ عذر ہو
گر وہ قسم دلائے تمہیں اپنی جان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب ۔ کلیاتِ داغ
مہتابِ داغ
ردیف ۔ ے ۔ صفحہ 842
……
بشکریہ ضیاء علی مغل