بریانی نامہ …………….. بنام خدا وندِ رزق آف…
……………..
بنام خدا وندِ رزق آفریں
ثنا جس کی خوراکِ جانِ حزیں
وہ رزاقِ مطلق وہ روزی رساں
وہ بخشندۂ جان وربِ جہاں
رگ جاں سےہے گو کہ نزدیک تر
مگر بھوکے معدے میں ہے جلوہ گر
غذا کس کو حق سے میسر نہیں
زمیں خوان ِ نعمت سے کم تر نہیں
ہر اک شے کو خوراک مطلوب دی
جو شے جس کو بھی حق نے دی خوب دی
ستاروں سے پر بطن افلاک ہے
معادن کا گھر معدہ ءخاک ہے
وہ پیر ِ فلک ھو کہ زال ِ زمیں
سبھی خوان نعمت کے ہیں ریزہ چیں
سجایا ہے یوں خوانِ ایام کو
شفق کا ملاقورمہ شام کو
زمیں کو ملی سنگ ریزوں کی ڈال
فلک کو دیا صبح کا شیر مال
فلک جلوہ گاہِ مہ وآفتاب
حقیقت میں اک کوفتوں کی ہے قاب
نہ کیوں قرص ِ خورشید کا ہو ظہور
کہ گردون گرداں ہیں یکسر تنور
نہ کہیۓکہ مذبح ہے’ مسلخ ہے یہ
دوعالم کے داتا کا مطبخ ہے یہ
یہ دنیا ہے انعامِ رب جہاں
ہر اک قسم کی نعمتیں ہیں یہاں
شکم کی غذا فضلۂ تہہ نشیں
قلم کی غذا حمد رزق آفریں
الہی بحق شکم پروراں
عطا کر مجھے معدۂ ہفت خواں
وہ معدہ عدوۓ غذاۓ لطیف
وہ معدہ کہ بریانیوں کا حریف
وہ معدہ جو لقموں کا طالب رہے
وہ معدہ جو ہیضے پہ غالب رہے
وہ معدہ کہ تخمہ رہے جس سے دور
وہ معدہ کہ آرام گاہِ طیور
وہ معدہ گرانی میں سیروں کا ہو
جو گنجِ شہیداں بٹیروں کا ہو
وہ معدہ جسے کوفتوں سے ہو کد
وہ معدہ کہ ہو مرغیوں کی لحد
وہ معدہ کہ ہو معدنِ خشک وتر
برنج اور گندم کا گودام گھر
جہاں ڈھیر کی ڈھیر بریانیاں
جہاں قورمے کی ہوں نہریں رواں
بہ حق امیران معدہ پرست
کسی ایسے معدے کا ہو بند وبست
نہ خاطر میں لاۓ کسی صوم کو
نگل لے جو اک قوم کی قوم کو
وزیروں کا مہماں بنوں ہر سحر
ہر اک شام ھو میری شام ِ ڈنر
غرض یہ دعا ہے میری روزوشب
کہ اے میرے رزاق اے میرے رب
نہیں ہے مجھے احتیاجِ دماغ
بس اک معدۂ باعمل بافراغ
وہ معدہ کہ ھو ہاضم ضبط ونظم
وزارت کے عہدوں کو جو کر لے ہضم
بطِ مے کی للہ باتیں نہ چھیڑ
بنام خدا ذبح کر کویٔ بھیڑ
(رئیس امروہوی)
……………