آج معروف افسانہ نگار اور شاعرہ امرتا پریتم کا یوم …
اُن کی پیدائش 31 اگست 1919 کی ہےاور جائے پیدائش گوجرانوالہ!
تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی لیکن تقسیمِ پنجاب کی خونی لکیر عبور کرنے کا گمبھیر تجربہ ساری عمر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح اُن کے تعاقب میں رہا۔
بٹوارے کے بطن سے پھوٹنے والی لہو کی ندی پار کرتے ہوئے امرتا پریتم نے اُن ہزاروں معصوم خواتین کی آہ وبکا سُنی جو جُرمِ بےگُناہی کی پاداش میں زندہ درگور کر دی گئی تھیں۔
اس موقع پر امرتا نے وارث شاہ کی دہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اے دکھی انسایت کے ہمدرد تو نے پنجاب کی ایک بیٹی کے المیے پر پوری داستانِ غم رقم کر دی تھی، آج تو ہیر جیسی لاکھوں دُخترانِ پنجاب آنسوؤں کے دریا بہا رہی ہیں۔ اُٹھ اور اپنے مرقد سے باہر نکل!‘
اصل پنجابی متن کچھ اس طرح تھا:
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
اتے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمنداں دیا دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
امرتا پریتم کے سائیکی پر پنجاب کی تقسیم کا زخم انتہائی گہرا تھا اور یہ اُن کی نوجوانی کی نظموں سے لے کر پُختہ عمری کی فکشن تک اُن کے ذہن پر مسلط رہا۔
انکا ناول ’ پِنجر‘ اسی تقسیم کی خونچکاں داستان کا ایک باب ہے۔ پاکستانی پنجاب کے ادیبوں سے اُن کی گہری شناسائی اور سچّی دوستی تھی، اور اُن کی کم و پیش تمام تحریریں شاہ مکھی ( اُردو رسم الخط کی پنجابی) میں مُنتقل ہو چُکی ہیں۔ وہ اِس بات کی خواہاں تھیں کہ دونوں جانب کے پنجابی ادب کو شہ مکھی اور گور مکھی میں منتقل کیا جائے تاکہ دونوں ملکوں کی نئی نسل کو دونوں جانب کا ادب میسر آ سکے۔
بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتوں تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتوں تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔
[ad_2]