احسن مارہروی کی وفات August 30, 1940 سید شاہ علی…
August 30, 1940
سید شاہ علی احسن (پیدائش:1872ء ۔ وفات:1940ء) اردو شاعر تھے۔ ہندوستان کے شہر مارہرہ (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ اردو ، فارسی ، اور عربی خانقاہ برکاتیہ میں پڑھی جس کی اپنی ایک بڑی لائبریری تھی۔ 1893ء میں داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے اور ان سے اصلاح لینے لگے۔ 1895ء میں ماہنامہ گلدستہ ریاض سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد، دکن چلے گئے۔1904ءمیں پاکستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرہ خمخانہ جاوید کا مسودہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیح الملک جاری کیا۔ 1926ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔
چند منتخب اشعار
ایک دل ہے ایک حسرت ایک ہم ہیں ایک تم
اتنے غم کم ہیں جو کوئی اور غم پیدا کریں
…..
حالت دل بیتاب کی دیکھی نہیں جاتی
بہتر ہے کہ ہو جائے یہ پیوند زمیں کا
……
ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا
……
ہم اپنی بے قراری دل سے ہیں بے قرار
آمیزش سکوں ہے اس اضطراب میں
…..
ہمارا انتخاب اچھا نہیں اے دل تو پھر تو ہی
خیال یار سے بہتر کوئی مہمان پیدا کر
…..
عشق رسوا کن عالم وہ ہے احسنؔ جس سے
نیک ناموں کی بھی بد نامی و رسوائی ہے
…..
جب ملاقات ہوئی تم سے تو تکرار ہوئی
ایسے ملنے سے تو بہتر ہے جدا ہو جانا
……
کر کے دفن اپنے پرائے چل دیے
بیکسی کا قبر پر ماتم رہا
……..
کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا
کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا
………
کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا
روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا
………
کیوں چپ ہیں وہ بے بات سمجھ میں نہیں آتا
یہ رنگ ملاقات سمجھ میں نہیں آتا
……
موت ہی آپ کے بیمار کی قسمت میں نہ تھی
ورنہ کب زہر کا ممکن تھا دوا ہو جانا
…….
میرا حال زار تو دیکھا مگر
یہ نہ پوچھا کیوں یہ حالت ہو گئی
……
مجھے خبر نہیں غم کیا ہے اور خوشی کیا ہے
یہ زندگی کی ہے صورت تو زندگی کیا ہے
……..
مطمئن اپنے یقیں پر اگر انساں ہو جائے
سو حجابوں میں جو پنہاں ہے نمایاں ہو جائے
……
ناکام ہیں اثر سے دعائیں دعا سے ہم
مجبور ہیں کہ لڑ نہیں سکتے خدا سے ہم
…..
قاصد نئی ادا سے ادائے پیام ہو
مطلب یہ ہے کہ بات نہ ہو اور کلام ہو
…….
راہ الفت کا نشاں یہ ہے کہ وہ ہے بے نشاں
جادہ کیسا نقش پا تک کوئی منزل میں نہیں
…….
روک لے اے ضبط جو آنسو کہ چشم تر میں ہے
کچھ نہیں بگڑا ابھی تک گھر کی دولت گھر میں ہے
……
ساقی و واعظ میں ضد ہے بادہ کش چکر میں ہے
توبہ لب پر اور لب ڈوبا ہوا ساغر میں ہے
شیخ کو جنت مبارک، ہم کو دوزخ ہے قبول
فکر عقبیٰ وہ کریں، ہم خدمت دنیا کریں
……
تنگ آ گیا ہوں وسعت مفہوم عشق سے
نکلا جو حرف منہ سے وہ افسانہ ہو گیا
……
تمام عمر اسی رنج میں تمام ہوئی
کبھی یہ تم نے نہ پوچھا تری خوشی کیا ہے
……
یہ صدمہ جیتے جی دل سے ہمارے جا نہیں سکتا
انہیں وہ بھولے بیٹھے ہیں جو ان پر مرنے والے ہیں
[ad_2]