معروف نقاد، ادیب ، ریڈیو براڈ کاسٹر اور شاعر قمر ج…
August 27, 2000
10 مئی 1927ء پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، ریڈیو براڈکاسٹر، شاعر اور اردو ادب میں جدید تر رجحانات کے بانی قمر جمیل کی تاریخ پیدائش ہے۔
قمر جمیل حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جبکہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ انہوں نے دریافت کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ طویل عرصے سے ریڈیو پاکستان نے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔ اردو ادب کے علاوہ انگریزی اور عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ 27 اگست 2000ء کو قمر جمیل کراچی میں وفات پاگئے۔وہ کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ستارے آنگن میں ہین ان کو رخصت مت کرنا
شام سے میں بھی الجھن میں ہوں تم بھی غفلت مت کرنا
ہر آنگن مین دِیے جلانا ہر آنگن میں پھول کھلانا
اس بستی میں سب کچھ کرنا ہم سے محبت مت کرنا
اجنبی ملکوں اجنبی لوگوں میں آ کر معلوم ہوا
دیکھنا سارے ظلم وطن میں لیکن ہجرت مت کرنا
اس کی یاد میں دن بھر رہنا آنسو روکے چپ سادھے
پھر بھی سب سے باتیں کرنا اس کی شکایت مت کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا
یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے
شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا
ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے
جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا
جیسے عدم سے آۓ ہوں لوگ عجیب طرح کے
جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا
جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی
جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا
لوگ کٹے ہوۓ ادھر لاگ پڑے ہوۓ ادھر
جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا
جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا
جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا
کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی
میرے لہو میں گرد تھی آئینہ شفق نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں
تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں
پھر نکل آۓ گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اٹھا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیلؔ
اور کچھ لوگ چھپا رکھے ہیں آئینے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔