احمد فراز اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی اک غزل ہے کہ …
اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی
میں بھی شہرِ وفا میں نو وارد
وہ بھی رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی
میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس
وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی
دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی
گر چہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی
کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھِلتا
بُوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی
خود کلامی میں کب یہ نشّہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی
قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دُوریوں میں بھی دلکشی ہے ابھی
فصلِ گُل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی
رات کس ماہ وش کی چاہت میں
یہ شبستاں سجا رہی ہے ابھی
میں کسی وادیِ خیال میں تھا
برف سی دل پہ گر رہی ہے ابھی
میں تو سمجھا تھا بھر چکے سب زخم
داغ شاید کوئی کوئی ہے ابھی
دور دیسوں سے کالے کوسوں سے
کوئی آواز آ رہی ہے ابھی
زندگی کوئے نا مرادی سے
کس کو مڑ مڑ کے دیکھتی ہے ابھی
اس قدر کھِچ گئی ہے جاں کی کماں
ایسا لگتا ہے ٹوٹتی ہے ابھی
ایسا لگتا ہے خلوتِ جاں میں
وہ جو اک شخص تھا، وہی ہے ابھی
مدتیں ہو گئیں فراز مگر
وہ جو دیوانگی سی تھی، ہے ابھی
……
احمد علی برقی اعظمی
حسن میں اس کے دلکشی ہے ابھی
دلنشیں شانِ دلبری ہےابھی
روح پرور ہے اس کا حسن و جمال
دیکھ کر اس کو بیخودی ہے ابھی
ہے مرے سامنے وہ جانِ غزل
جس سے سرشار زندگی ہے ابھی
میں ابھی تک ہوں تیرا شیدائی
یہ بتا مجھ میں کیا کمی ہے ابھی
بھر دے پیمانہ میرا اے ساقی
اور دے اور تشنگی ہے ابھی
اس کی ریشہ دوانیاں مت پوچھ
کتنا کم طرف آدمی ہے ابھی
کب کرے گا وہ پرسشِ احوال
کتنی ویران زندگی ہے ابھی
صبح ہونے میں ہے ابھی تاخیر
پھر چلے جانا تیرگی ہے ابھی
منتشر ہے ہمارا شیرازہ
کس قدر ہم میں بے حسی ہے ابھی
دے گا دستک وہ کب درِ دل پر
اوج پر اس کی بے رخی ہے ابھی
کیا ملےگا اُجاڑ کر تم کو
دل کی دنیا مرے بسی ہے ابھی
کیوں بجھانے پہ تم تُلے ہو اسے
آتشِ شوق جل رہی ہے ابھی
میں بہت سخت جان ہوں برقی
روح میں میری تازگی ہے ابھی