مرزا اسد اللہ خان غالب نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحر…
نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا
بس کہ ہُوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
……
متین امروہوی
ہوگیا ہے دل نشانہ جب سے اس کے تیر کا
عشق فرمانا یہاں لانا ہے جوئے شیر کا
کرگیا پرواز وہ بھی اک پرندے کی طرح
حسن کے فتراک میں دم عشق کے نخچیر کا
روز ہوتی ہے چمن میں چاک پھولوں کی قبا
’’ کاغزی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا ‘‘
فرش کاغذ پر خوشی سے رقص کرتا ہے قلم
معجزہ یہ بھی ہے اس کی شوخیٔ تحریر کا
سرخرو جو بھی متین آیا ہے اس کی بزم سے
شکر کرتا ہے ادا وہ کاتبِ تقدیر کا
…..
ماجد صدیقی
حشر کیا ہو گا بھَلا جینے کی اِس تدبیر کا
سوچ پر بھی ہے گماں جب حلقۂ زنجیر کا
کس کا یہ سندیس آنکھوں میں مری لہرا گیا
صفحۂ بادِ صبا پر عکس ہے تحریر کا
سنگِ رہ کا توڑنا بھی تھا سَر اپنا پھوڑنا
ہاں اثر دیکھا تو یوں اِس تیشۂ تدبیر کا
ہم نے بھی اُس شخص کو پایا تو تھا اپنے قریب
پر اثر دیکھا نہیں کچھ خواب کی تعبیر کا
ہم تلک پہنچی ہے جو ماؔجد یہی میراث تھی
فکر غالبؔ کی اور اندازِ تکلّم میرؔ کا
…..
ماجد صدیقی
ہم نے رانجھے کو بنایا ہے نشانہ تِیر کا
اور وارث شاہؒ نے ناٹک دکھایا ہِیر کا
جانے کیسے ہانپتے جیون بِتائے گی دُلہن
پڑ گیا دُولہے پہ سایہ گر کسی ہمشیر کا
یہ کرشمہ بھی کہیں منڈی سے دُوری کا نہ ہو
شہد کہتے ہیں کہ ہوتا ہے نِرالا دِیر کا
طولِ قامت ناپتے اُس شوخ کا ہم پر کُھلا
ذائقہ کچھ اور ہوتا ہے زَبَر اور زِیر کا
بحر میں جا کر جو کہلائی ہے سونامی کی لہر
ہاں وہ نالہ تھا ہم ایسے ہی کسی دل گیر کا
کج ادائی دے گئی آرائشِ گیسو اُسے
ہاں یہی چرچا سُنا ہے اُس کے ٹیڑھے چِیر کا
وہ کہے، ہو تازگی تو رُوئے جاناں کی سی ہو
اور داعی ہے تُو ماؔجد شعر میں تاثِیر کا