( غیــر مطبــوعـہ ) پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں ج…
پانی پہ کوئی نقش بنایا نہیں جاتا
جوں خاک سے سائے کو اُٹھایا نہیں جاتا
جو تونے دکھایا ہے’ وہ دیکھا نہیں میں نے
جو دیکھ رہا ہوں ‘ وہ دکھایا نہیں جاتا
وہ پیڑ ۔۔۔ جسے عمر ہوئی ‘ کاٹ چکا ہوں
گھر سے مِرے اُس پیڑ کا سایا نہیں جاتا
میں لوٹنے والوں سے شکایت نہیں کرتا
اور چھوڑنے والوں کو منایا نہیں جاتا
یہ راز نہیں ہے کہ جسے درد بنا لوں
یہ زخم ہے اور زخم چھپایا نہیں جاتا
ہم وقت کے گھڑیال پہ گذرے ہوئے پل ہیں
چاہیں بھی تو اب لَوٹ کے جایا نہیں جاتا
یوں وصل کو متروک کیا اپنے لغت سے
پلکوں سے بھی پلکوں کو ملایا نہیں جاتا
اندازہ لگاؤ نہ محبّت کا یقیں سے
اخروٹ کو توڑے بِنا کھایا نہیں جاتا
بے گانگی کی بات الگ ہے مگر’ اجمـلؔ !
اس طرح سے تو ہاتھ چھڑایا نہیں جاتا
( اجمــلؔ فــریــد )