ہم کو مِٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں ہم سے زمانہ خو…
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بیکار غم نہیں
توفیق دے خدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہٴ اہل ستم نہیں
مجھ کو جگادیا، یہی احسان کم نہیں
یا رب! ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا، ابھی مِری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے لیکن حقیقتاََ
تیرا سِتم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں کوئی نقشِ قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزا ستمِ روزگار میں
تیرا کرم بھی خود جو شریکِ ستم نہیں
زاہد! کچھ اور ہو نہ ہو میخانے میں، مگر
کیا کم یہ ہے، کہ فتنۂ دیروحرم نہیں
مرگِ جگرؔ پہ کیوں تِری آنکھیں ہیں اشک ریز!
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں!
(جگرؔ مراد آبادی)
[ad_2]