آج کل ہند و پاک کے درمیان ایک سرد جنگ جاری ہے، ایک…
(ہندوستانی دانشوروں کے نام)
” دوستی کا ہاتھ ”
گزر گئے کئی موسم کئی رتیں بدلیں
اداس تم بھی ہو یارو اداس ہم بھی ہیں
فقط تمہیں کو نہیں رنج- چاک دامانی
کہ سچ کہیں تو دریدہ لباس ہم بھی ہیں
تمہارے بام کی شمعیں بھی تابناک نہیں
مرے فلک کے ستارے بھی زرد زرد سے ہیں
تمہارے آئینہ خانے بھی زنگ آلودہ
مرے صراحی و ساغر بھی گرد گرد سے ہیں
نہ تم کو اپنے خد و خال ہی نظر آئیں
نہ میں یہ دیکھ سکوں جام میں بھرا کیا ہے
بصارتوں پہ وہ جالے پڑے کہ دونوں کو
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ماجرا کیا ہے
نہ سرو میں وہ غرور- کشیدہ قامتی ہے
نہ قمریوں کی اداسی میں کچھ کمی آئی
نہ کھل سکے کسی جانب محبتوں کے گلاب
نہ شاخ- امن لئے فاختہ کوئی آئی
تمہیں ضد ہے کہ مشق- ستم رہے جاری
ہمیں بھی ناز، کہ جور و جفا کے عادی ہیں
تمہیں زعم مہا بھارتا لڑی تم نے
ہمیں بھی فخر،کہ ہم کربلا کے عادی ہیں
ستم تو یہ ہے کہ دونوں کے مرغزاروں سے
ہوائے فتنہ و بوئے فساد آتی ہے
الم تو یہ ہے کہ دونوں کو وہم ہے کہ بہار
عدو کے خوں میں نہانے کے بعد آتی ہے
تو اب یہ حال ہوا اس درندگی کے سبب
تمہارے پاؤں سلامت رہے نہ ہاتھ مرے
نہ جیت، جیت تمہاری، نہ ہار، ہار مری
نہ کوئی ساتھ تمہارے،نہ کوئی ساتھ مرے
ہمارے شہروں کی مجبور و بے نوا مخلوق
دبی ہوئی ہے دکھوں کے ہزار ڈھیروں میں
اب ان کی تیرہ نصیبی چراغ چاہتی ہے
جو لوگ نصف صدی تک رہے اندھیروں میں
چراغ، جن سے محبت کی روشنی پھیلے
چراغ، جن سے دلوں کے دیار روشن ہوں
چراغ، جن سے ضیا امن و آشتی کی ملے
چراغ، جن سے دئے بے شمار روشن ہوں
تمہارے دیس میں آیا ہوں دوستو اب کے
نہ ساز و نغمہ کی محفل نہ شاعری کے لیے
اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر
چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے
———————————————————-
اس نظم کے جواب میں اپنے سردار جی یعنی علی سردار جعفری نے بطور جواب آں غزل کے جو نظم کہی وہ بھی دیکھ لیں
” احمد فراز کے نام ”
تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لیے
میرے لئے ہے وہ اک یار- غمگسار کا ہاتھ
وہ ہاتھ شاخ- گلشن- تمنا ہے
مہک رہا ہے میرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے
عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے
زمیں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لئے
زمین- پاک ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے
ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنؤ کی طرح
تمہارے لہجے میں میری نوا کا لہجہ ہے
تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح
کریں یہ عہد کہ اوزار- جنگ جتنے ہیں
انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانے ہے
کریں یہ عہد کہ ارباب- جنگ ہیں جتنے
انہیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے
جئیں تمام حسینان- خیبر و لاہور
جئیں تمام جوانان- جنت- کشمیر
ہو لب پہ نغمہء مہر و وفا کی تابانی
کتاب- دل پہ فقط حرف- عشق ہو تحریر
تم آؤ گلشن- لاہور سے چمن بر دوش
ہم آئیں صبح- بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے
المرسل :-: ابوالحسن علی ندوی(بھٹکلی)