آج پاکستان کی آزاری کو ستر سال ہوگئے ۔ چودہ اگست یوم آزادی مبارک کے نعرے ہر طرف ہے مگر کیا ہم آزاد ہیں؟؟

کسی کی مال دولت سب چھوڑ کے اس نئے مسلم معاشرہ میں قدم رکھا تب لوگوں کو اس کی قیمت پتہ تھی۔۔
کیوں کہ اپنانوں کا خون شامل ہے اس عرض پاک میں۔۔
وہی لوگ جانتے ہیں جن کو زخم لگا لہو نکلا ۔۔۔ اور ہر سال ان یادوں کے زخم تازہ کر دیتی ہے یہ آزادی مبارک کی فضا۔۔۔ بہت افسوس کے ساتھ کہ ہم نے ان عظیم لوگوں کی قربانی کی بھی قدر نہ کی ۔۔۔
جس منزل پہ ہم کو جانا تھا ہم اس پہ ہیں ہی نہیں ۔۔
ہم میں چوری چکاری رشوت خوری بے ایمانی عام ہے
ہم وہ قوم ہیں ہی نہیں جس کے لیے محمد علی جناح نے اتنی محنت کی۔۔۔۔
ہاں ہم آزاد ہیں مگر صرف جسم ہی آزاد ہیں
ذہنیت تو ابھی اس عوام کی غلاموں والی ہے اور اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں پہلے ہم انگریز کے غلام تھے اور آج ان کے غلاموں کے غلام ہیں ہمارے حکمران ابھی تک غلام ہیں ملازم ہیں سفید چمڑی کے اور اس عوام کو ہر سال آزادی کا لالی پاپ دیتے ہیں ۔۔
اور یہ قوم خوشی خوشی اس لالی پاپ پہ دھمال ڈالتی ہے سچ بڑا تلخ ہوتا ہے ۔۔۔ مگر آنکھ بند کرنے سے دن رات نہیں ہوجاتا دن ہی رہتا ہے ۔۔۔
صدر پاکستان کا کام کسی بھی قومی دن پہ اپنی کالی شیروانی پہن کر ایک پرچے پہ لکھی تقریر پڑھنا ہوتا ہے۔۔

تب ہی عوام پیچھے پیچھے گھوم۔ رہی ہے کیوں کہ روپے ملتے ہیں دھرنوں میں آمد کے۔۔۔

پاکستان سے یہ جہالت کب ختم ہو کچھ کہا نہیں جاسکتا کیوں کہ ایک نعرہ آج بھی مشہور ہے کہ
” ہر گھر میں بھٹو زندہ ہے ”
جو زندہ ہیں ان کی قدر نہیں اس قوم کو اور جو قبروں میں اپنے کیے کی سزا جزا دیکھ رہے ہیں ان کے لیے نعرے آج بھی تو کوئی شک ہی نہیں پیدا ہوتا یہ قوم ہے ہی تماشائی۔۔

تحریر_سماءچودھری