دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو کوئی تو ہو جو …
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو
وہ میرے نام کی نِسبت سے مُعتبر ٹھرے
گلی گلی میری رسوائیوں کا ساتھی ہو
کرے کلام جو تجھ سے تو میرے لہجے میں
میں چپ رہوں تو میرے تیوروں کا ساتھی ہو
میں اپنے آپ کو دیکھوں وہ مجھے دیکھے جائے
وہ میرے نفس کی گمراہیوں کا ساتھی ہو
افتخار عارف
المرسل: فیصل خورشید