اے عشق ِ سینہ سوز مرے دل سے دل ملا اور یوں کہ بس …
اور یوں کہ بس کلام ہو اور گفتگو نہ ہو
(سعود عثمانی )
سعود عثمانی کا تعلق ایک ایسے ادبی و علمی گھرانے سے ہے جس میں بہت عمدہ شاعر جناب ذکی کیفی (والد) اور مولانا جسٹس (ریٹائرڈ) تقی عثمانی (چچا) جیسے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔
سعود عثمانی 6 دسمبر 1961 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں ہی مستقل سکونت ہے۔ بی ایس سی (فزکس) اسلامیہ کالج سول لائینز اور ایم بی اے (پنجاب یونیورسٹی) سے مکمل کیے اور اس وقت سے پبلشنگ اینڈ ایکسپورٹ کو سنبھال رہے ہیں ۔
سعود عثمانی کی شاعری کی 2 کتب بالترتیب “قوس” 1997 میں اور “بارش” 2007 میں منظر عام پر آئیں اور اپنی فکری جہتوں، اسلوب، جدید لہجے اور عمدہ پیرایۂ اظہار کے باعث ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔
سعود عثمانی کی ان کتب کے اعلی و عمدہ معیار کی وجہ سے “قوس” کو “وزیر اعظم ادبی ایوارڈ” اور “بارش” کو “احمد ندیم قاسمی ایوارڈ” سے نوازا گیا۔
ان 2 کتب کے علاوہ سعود عثمانی نے کچھ کتابوں کے تراجم بھی کیے، جس پر انہیں “میاں محمد بخش ایوارڈ” اور “حسن قلم ایوارڈ” سے نوازا گیا۔
سعود عثمانی پاکستان اور بیرون ملک میں متعدد اقوامی و بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں ۔
چند متفرق اشعار
سفر سے پہلے پرکھ لینا ہم سفر کا خلوص
پھر آگے اپنا مقدر ہے، جو مقدر ہو
٭٭٭٭٭٭
یہ زہر خون کے ہمراہ رقص کرتا ہے
بہت چکھا ہے محبت کا ذائقہ میں نے
********
کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کِھلتا ہے
یہی وہ پھول ہے جو زیر ِ آب کھلتا ہے
قبائے سرخ سنہرا بدن بھی چاہتی تھی
کہاں ہر ایک پہ رنگ ِ شراب کھلتا ہے
یہ کون ہے کہ دریچے شگفت ہونے لگے
جھروکے پھوٹتے ہیں ، بند باب کھلتا ہے
کسی کسی کو میسر ہے جستجو تیری
کسی کسی پہ یہ باغ ِ سراب کھلتا ہے
لہو کی باس ہواؤں میں رچنے بسنے لگی
کھلا وہ زخم کہ جیسے گلاب کھلتا ہے
گل ِ سخن بھی ہے غالب کی مے کشی جیسا
بروز ِ ابر و شب ِ ماہتاب کھلتا ہے