( غیــر مطبــوعۤہ ) ٹریفک یہ شہرِ ستم ماردیتا ہے…
ٹریفک
یہ شہرِ ستم ماردیتا ہے مجھ کو
سرِراہ شام و سحَر کے کنارے
نزارو پریشاں میں شوریدہ سر
ازدحامِ کسالت میں گم
اپنے چاروں طرف اک نظر ڈالتا ہوں
تو یہ سوچتا ہوں
کہ یہ گاڑیاں ہیں
یا گاڑی نما وَحشتیں رینگتی ہیں
مجھے وحشتیں ڈس رہی ہیں
تھکن سے بدن میں دراڑیں پڑیں ہیں
کوئی منزلِ بے نشاں تک نہیں ہے
قدم میرے بوجھل
مِرے دست و پا شل
نظر ایسے پتھرا گئی ہے کہ جیسے
زمیں رک گئی ہو
سمجھ ایسے گھبرا گئی ہے کہ جیسے
خــرَد باختہ ہو
مگر میرے پنجے زمامِ ستم ہاے جاں پر مسلسل گڑے ہیں
میسّر نہیں ہے جنہیں اِستراحت کا پَل
فقط ایک ہی پل
مِرے دست و پا شل
ضیافت ہے سڑکوں کی میرے
یہ گھٹن کی فَضا اور یہ کالادھواؑں
سسکیوں کی پلیٹوں میں وقتِ عبث ہے
زیاں ہم نفَس ہے
قفس ہے ، سڑک ہے ، سڑک ہے ،قفس ہے
قفس میں قطاروں کی لمبی فصیلیں
فصیلوں کے خوفِ جنوں خیز میں اب
مسافت طوالت پکڑنے لگی یوں
سڑک بن گئی ایک دلدل
مِرے دست و پا شل
بَہ ظاہر جو سیدھے نظر آ رہے ہیں
یہ سب راستے دائروں کی طرح ہیں
وجودِ ملامت میں پھیلے ہوئے
بے کراں فاصلوں کے نشاں ہیں
جہاں خلقتِ بے اماں کے لئے
روزوشب مرگِ پیہم سزاوار ہونے لگے ہیں
( ســـلمانؔ ثروت )