( غیــر مطبــوعــہ ) کچھ دیر نخلِ وقت پہ پَھل آئے…
کچھ دیر نخلِ وقت پہ پَھل آئے اور گئے
مِلنے مجھے نویدؔ ! وہ کل آئے اور گئے
اُس شاخ پر ٹھہَرنا زیادہ ضروری تھا
لیکن ہم اپنی رَو میں مچل آئے اور گئے
کر لیتا آگے بڑھ کے مَیں اِس جمگھٹے سے بات
مَیں دیکھتا ہی رہ گیا ‘ پَل آئے اور گئے
مَیں بات کر رہا تھا مگر سُنتے سُنتے ہی !
ماتھے پہ اُس کے کتنے ہی بَل آئے اور گئے
پھر بھی اُسے مَیں دُور ہی سے دیکھتا رہا
گو بار بار سر میں خلل آئے اور گئے
تُو جا رہا تھا ‘ تیرے تحفّظ کے واسطے
سائے ہزار مجھ سے نکل آئے اور گئے
خطرات نے تو خلوتِ جاں آن لینی تھی !
لیکن ہم اپنے خطرے سے ٹل آئے اور گئے
دروازے ہم نے کھول دئیے روحوں کے لئے
اطرافِ جسم و جاں سے نکل آئے اور گئے
اندازہ ہی کہاں تھا ٗ ہے اندر اکیلا پن
بہروپ کوئی چہرے پہ مَل آئے اور گئے
مَیں بازگشت بن کے رہا اپنے شعر میں
کتنے سخُن وَرانِ غزل ‘ آئے اور گئے
پچھلے فراق وصل میں تا بدلے جا سکیں
حالت سے ایک روز سنبھل آئے اور گئے
مَیں جھونپڑی میں روح کی اپنی پڑا رہا
رہنے کو میرے لاکھ محَل آئے اور گئے
پانی سا مَیں وہیں پہ کھڑا رہ گیا ‘ نویــدؔ !
لہروں پہ میری کتنے کنول آئے اور گئے
( افضـــال نویــدؔ )