کچھ بھی نہیں رہا یہاں ، آپ سے کیا چھپائیے دل ہی می…
دل ہی میں جب لہو نہیں ‘ شور کہاں مچائیے
دوری فریب ہے مگر ، دوری میں راستہ بھی ہے
بیٹھے رہیں گے کب تلک ، اب انہیں ڈھونڈ لائیے
سر میں جو گونجتی بھی ہے ، ہونٹوں پہ ڈولتی بھی ہے
کس کو ہے تابِ غم یہاں ، کس کو یہ دُھن سنائیے
سرحدِ شوق سے پرے ، شام کی بستیاں بھی ہیں
جب یہ سفر تمام ہو ، آگے کدھر کو جائیے
ڈھل گئی رات دیکھیے ، راہ رخِ امید کی !
اب ہمیں نیند آ گئی ، اب نہ ہمیں ستایئے
آنکھیں تھیں چاہتوں بھری ، چہرے جو مہربان تھے
اب وہ نظر نہ آئیں گے ، اب انہیں بھول جائیے
جان ہے۔۔ تو جہان ہے ، دل ہے ۔۔۔ تو آرزو بھی ہے
عشق بھی ہو رہے گا پھر ، جان ابھی بچائیے
کھو گئے خوابِ چشم و لب ، تابِ طلب نہیں رہی
دل میں وہ زور اب کہاں ، اب یہ دکاں بڑھائیے
( ابــرارؔ احـــمد )