( غیــر مطبــوعــہ ) یہ ہوا کہ چاند نے کچھ بے رخی…
یہ ہوا کہ چاند نے کچھ بے رخی سے بات کی !
رفتہ رفتہ نم ہوئیں پلکیں اکیلی رات کی
یاد کا صندوق کھولا تھا کہ بارش ہوگئی
باڑھ آنکھوں میں امڈ آئی کسی برسات کی
بال چاندی آنکھ میں آنسو بھی پتھر ہو گئے
راہ تکتی رہ گئی ہیں لڑکیاں بارات کی
مسلکِ شعر و سخن میں بھی عقیدہ شرط ہے
بات آ جاتی ہے ساری عزّتِ سادات کی
خواب دے آنکھوں کو میری یا اندھیرے بخش دے
میں پزیرائی کروں گی تیری ہر سوغات کی
مجھ کو اُس کی شاعری میں سادگی اچّھی لگی
جیسے دل کو بھا گئی آب و ہَوا دیہات کی
اب کسی بھی بات پر ہوتی نہیں حیرت اِسے
ثروتؔ ! ایسی ہو گئی عادی تری عادات کی
( ثروتؔ حُسین نقوی )