( غیــر مطبــوعـہ ) انا کا اک گھنا سیاہ تاریک جن…
انا کا اک گھنا
سیاہ تاریک جنگل
جہاں اپالو راجا آنکھ چرا کر گذر جاتا
وہیں پر ڈوبتا جارہا ہے دل محل
کالی دلدل کئی سَو ہاتھوں سے اپنی اور کھینچتی ہے
صدّیوں کی بھوکی حاسد دشت و دلدل
ہیں منتظر سماعتیں
کسی کے دھیمے قدموں کی آہٹ کی
اک دستک کی
جس سے کھل جائیں گے بند کواڑ دل محل کے
جہاں ہیں خوشیوں کے منتظر
نہیں
زندگی کے
زندگی جو ہاتھ سے پھسلتی جا رہی ہے
اک لفظ
کسی کا ایک لفظ
مٹا دے گا تلخیاں زمانوں کی
مون سون کے لمس
ویرانوں میں کِھلے پھولوں کی مہک
بارش کے قدموں سے لپٹی کہانیاں
ایک طلسم کے ٹوٹ جانے سے لَوٹ آئیں گی
نہیں ! یہ نہیں ہوگا
منڈیروں پر سے اُڑ جانے والے پیارے پنچھی پھر نہیں آتے
منتظر سماعتوں کو وقت کا عفریت کھا گیا
دستک تو ہوئی دل محل کے کواڑوں پر
مگر اب وقت کے پھیر میں پھنسے والوں کے ہاتھ پُشت پر بندھے ہیں
گذرے وقت کی دھول پر بے قرار پانو ( پاؤں ) کے نشان ہیں
اور دل محل ڈوب رہا ہے
دور افق پار اپالو راجا نظریں چُرا رہا ہے
جیت پھر انا کے سیاہ رُو جنگل کی ہے
( شــازیــہؔ مفتــی )