( غیـــر مطبــوعــہ ) مِری ہی طرح سے دشمن جو اِمت…
مِری ہی طرح سے دشمن جو اِمتحاں دیتا
زمیں پہ پانو مَیں رکھتی’ وہ آسماں دیتا
ہوئی جو مات ۔۔۔ سبھی فیصلے اُسی کے تھے
مِری تھی جیت ۔۔۔۔ مجھے میرا ہی جہاں دیتا
یہ جو ستارہ ۔۔۔۔۔ مجھے آسماں پہ چھوڑ گیا
زمیں پہ ساتھ ہی رہتا تو کہکشاں دیتا
تراش کر مجھے اب تک بنانے والا ‘ جو
نظر خموش ہی رکھتا ، مگر زباں دیتا
یہ کس قبیلے سے آ کر ملی ہیں بنیادیں
شجر وہ کاٹ ہی دیتے جو سائباں دیتا
مِلایا جس نےجہاں بھر کی خود فریبی سے
تو کس یقین سے جینے مجھے یہاں دیتا
مجھے یہ ناز تو ہوتا کہ میرا ہے ہر دَم
ہزار فاصلے رکھتا ‘ مُجھی پہ جاں دیتا
رِداؔ ! یہ تجھ میں بغاوت تھی اِس لئے شامل
بہار مانگتی رہتی ۔۔۔ وہ بس خزاں دیتا
( رِداؔ فــاطـــمــہ )