( غیــر مطبــوعــہ ) دَر پسِ آئنہ تحلیل ہُوا جاتا…
دَر پسِ آئنہ تحلیل ہُوا جاتا ہوں
جسم سے رُوح میں تبدیل ہُوا جاتا ہوں
محوِ پروُردگی ۔۔۔ تشکیل ہُوا جاتا ہوں
اپنے شہ کار کی تمثیل ہُوا جاتا ہوں
آن بیٹھا ہوں ستاروں کا خلا بھرنے کو
گردشِ پایہء تکمیل ہُوا جاتا ہوں
سخت مشکل تھا سمَجھنا ‘ وہ کہاں کیسا ہے
کچھ نہ کچھ اِس کی مَیں تاویل ہُوا جاتا ہوں
ذرّے سے کم پہ مَیں مرکُوز ہُوا تھا پہلے
اور اب ذرّے کی تفصیل ہُوا جاتا ہوں
تُو کہاں پر ہے ‘ مِری آنکھ سے تاریکی تک
دیکھنے کے لئے قندیل ہُوا جاتا ہوں
چہرے پر باغ اُبھرنے لگا دھیرے دھیرے
تیری دُھن میں ۔۔ تِری تجمیل ہُوا جاتا ہوں
کاٹتا جاتا ہوں اَطراف سے مرضی اپنی
تیرے ہر حُکم کی تعمیل ہُوا جاتا ہوں
وقت آنے پہ تردُّد نہ ہو یعنی مابَین
دامنِ ہجر ! تری جھیل ہُوا جاتا ہوں
تیرا ہر لَمس مِرے جسم سے اُگنے لگا ہے
ریشہ ریشہ تِری تحویل ہُوا جاتا ہوں
آنے والوں کے لئے ۔۔۔ میرا پتا تا کہ چلے
مستقل کِرنوں بھرا مِیل ہُوا جاتا ہوں
آئنہ بن کے خلاؤں میں رَواں ہوں ہر دَم
حاصلِ خلیہ ہوں ‘ تحصیل ہُوا جاتا ہوں
خوں کی حِدّت سے نکالا ہے نیا داغ ‘ نویـــدؔ !
جوہَرِ تازہ کی ترسیل ہُوا جاتا ہوں
( اَفضـــال نویـــدؔ )