( غیــر مطبــوعــہ ) ابھی سب کچھ ادھو…
ابھی سب کچھ ادھورا ہے
ہماری چاہتیں
آدھی صدی سے کچھ زیادہ کا سفر
طے کر چکی ہیں
ہماری قربتوں نے
زندگی کی شاخ سے خوشیوں کے سارے پَل
چُرائے ہیں
مگر پھر بھی
مجھے کیوں ایسا لگتا ہے
ابھی میں نے
نظر بھر کر تمہیں دیکھا نہیں ہے
ابھی میری زباں پر
وہ سبھی باتیں
ابھی آئی نہیں ہیں
جنہیں کہنے کی خاطر
دل تڑپتا ہے
مجھے کیوں ایسا لگتا ہے
ابھی میں نے
شرارت کے وہ سارے کھیل کھیلے ہی نہیں ہیں
جو میرے ذہن کی وادی میں
کروٹ لیتے رہتے ہیں
غرض اک تشنگی
تنہائیوں میں بار ہا مجھ سے یہ کہتی ہے
ابھی سب کچھ ادھورا ہے……
مجھے کیوں ایسا لگتا ہے
کہ تم سے پیار کرنے کے لیے
اک جنم کافی نہیں ہے!
( سُــلیمان خُمــارؔ )