( غیــر مطبــوعــہ ) جو کام تم سے نہیں ہُوا ‘ و…
جو کام تم سے نہیں ہُوا ‘ وہ ہَوا کرے گی
کہ میری مٹّی کو پھر سے یک جا صبا کرے گی
ابھی تو ہونٹوں پہ چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے !
خموشی ٹوٹی تو حشر پھر سے بپا کرے گی
میں چھوڑ آئی ہوں دکھ کے موسِم کسی گلی میں
کہ درد کی رت اسے بھی شاید ہرا کرے گی
بنا لیا ہے اِسی سڑک پر مکان اپنا
کہ بس یہیں سے تمہارے گھر کی مِلا کرے گی
گلاس پانی سے بھر گیا ہے ‘ چٹخ نہ جائے
یہ صبر پیالی الٹ گئی تو, گِلہ کرے گی
قریب ہوں جب ترے تُو مجھ سے خفا خفا ہے
سہیلی ! تجھ سے بچھڑ گئی میں تو کیا کرے گی
کھنچی ہوئی ہے یہ قوس کیسی ہمارے مابین
مجھے یقیں ہے, یہیں ہمیں پھر جدا کرے گی
وہ ایک پَگ ڈنڈی جا رہی ہے تمہارے گاؤں !
جو میں چلوں تو یہ اپنی بانہوں کو وا کرے گی
( شــائســتـہ سَــحَــرؔ )