احمد فراؔز . اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی اِک غزل ہے، کہ ہو رہی ہے ابھی میں بھ…
.
اوّل اوّل کی دوستی ہے ابھی
اِک غزل ہے، کہ ہو رہی ہے ابھی
میں بھی شہرِ وَفا میں نَو وارد
وہ بھی، رُک رُک کے چل رہی ہے ابھی
میں بھی ایسا کہاں کا زُود شناس
وہ بھی، لگتا ہے، سوچتی ہے ابھی
دِل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پِھر بھی کُچھ احتیاط سی ہے ابھی
گر چہ پہلا سا اِجتناب نہیں
پِھر بھی ، کم کم سُپردگی ہے ابھی
کیسا موسم ہے، کُچھ نہیں کُھلتا !
بُوندا باندی بھی ، دُھوپ بھی ہے ابھی
خود کلامی میں ،کب یہ نشّہ تھا
جس طرح ، رُوبَرُو کوئی ہے ابھی
قُربتیں ،لاکھ خُوبصورت ہوں !
دُورِیوں میں بھی دِلکشی ہے ابھی
فصلِ گُل میں، بہار پہلا گلاب
کِس کی زُلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی
رات! کِس ماہ وش کی چاہت میں
یہ شبستاں سجا رہی ہے ابھی
میں کسی وادئ خیال میں تھا
برف سی دل پہ گر رہی ہے ابھی
میں تو سمجھا تھا بَھر چُکے سبھی زخم
داغ، شاید کوئی کوئی ہے ابھی
دُور دَیسوں سے، کالے کوسوں سے !
کوئی آواز آ رہی ہے ابھی
زندگی کُوئے نا مرادی سے
کِس کو مُڑ مُڑ کے دیکھتی ہے ابھی
اس قدر کھِچ گئی ہے، جاں کی کماں
ایسا لگتا ہے ٹُوٹتی ہے ابھی
ایسا لگتا ہے خلوتِ جاں میں
وہ جو اک شخص تھا، وہی ہے ابھی
مُدَّتیں ہو گئیں فراؔز !مگر
وہ ،جو دِیوانگی سی تھی، ہے ابھی
۔
احمد فراؔز