ندی کنارے اک جنگل میں ندی کنارے اک جنگل میں تین کنواریاں چاند کے حوض سے دُھل کر…
ندی کنارے اک جنگل میں
تین کنواریاں
چاند کے حوض سے دُھل کر نکلیں
عریاں جسموں کے موسم میں
اس نے اپنی خواہش کے نارنجی پھول کو کھلتے دیکھا
رات اور دن کو ملتے دیکھا
پہلی عورت کی چھاتی میں
جنگل کے پھولوں کا رس تھا
تلووں سے پوروں تک چڑھتا
شہد بھری شہوت کا مس تھا
لہراتے بالوں میں اُڑتی
کوندے کی اک تیز چمک تھی
چاروں جانب
گندم کی مدہوش مہک تھی
وہ دھندلی سانسوں کو چھو کر
ترچھی ڈھلوانوں سے گزرا
شطرنجی خانوں سے گزرا
رگوں میں خون کی لذت بدلی
دیکھتے دیکھتے اس کی ساری
صورت بدلی
یکدم اس نے مڑ کر دیکھا
وہ عورت تھی تیز ہوا کا ایک بگولا
دھوئیں کا اک اُڑتا مرغولا
دوسری عورت کے ہاتھوں میں
اس نے اپنا بچہ دیکھا
کھلتی گود کے آئینے میں
اپنے جیسا چہرہ دیکھا
روئیں روئیں میں تازہ نسلیں گندھی ہوئی تھیں
اس کی ناف سے ساری عمریں بندھی ہوئی تھیں
جب وہ اس کی ناف سے ٹوٹا
ایک لہو کا چشمہ پھوٹا
اس چشمے میں
اس کی رنگت بدل چکی تھی
کنپٹیوں پر برف جمی تھی
تیسری عورت کے قدموں میں
اس کا سایا
دم بھر تڑپا
آہستہ سے
ٹھنڈا بوسہ
خون میں اُترا
پھر دل اس کا زور سے دھڑکا
دور افق پر پوپھٹتی تھی
جنگل کے خالی رستوں پر
ازلوں جیسی خاموشی تھی
سرمد صہبائی
[ad_2]