احساسِ کامراں افقِ روس سے بھوٹی ہے نئی صبح کی ضو شب کا تاریک جگر چاک ہوا جاتا ہ…
افقِ روس سے بھوٹی ہے نئی صبح کی ضو
شب کا تاریک جگر چاک ہوا جاتا ہے
تیرگی جتنا سنبھلنے کے لیے رکتی ہے
سرخ سیل اور بھی بے باک ہوا جاتا ہے
سامراج اپنے وسیلوں پہ بھروسہ نہ کرے
کہنہ زنجیروں کی جھنکاریں نہیں رہ سکتیں
جذبہ نصرتِ جمہور کی بڑھتی رو میں
ملک اور قوم کی دیواریں نہیں رہ سکتیں
سنگ و آہن کی چٹانیں ہیں عوامی جذبے
موت کے رینگتے سایوں سے کہو ہٹ جائیں
کروٹیں لے کے مچلنے کو ہے سیلِ انوار
تیرہ و تار گھٹاوں سے کہو چھٹ جائیں
سالہا سال کے بے چین شراروں کا خروش
اک نئی زیست کا درباز کیا چاہتا ہے
عزمِ آزادیء انساں، پہ ہزاروں جبروت
اک نئے دورکا آغاز کیا چاہتا ہے
برتر اقوام کے مغرور خداوں سے کہو
آخری بار ذرا اپنا ترانہ دھرائیں
اور پھر اپنی سیاست پہ پیشماں ہو کر
اپنے ناکام ارادوں کا کفن لے آئیں
سرخ طوفان کی موجوں کو جکڑنے کے لیے
کوئی زنجیر ِ گراں کام نہیں آسکتی
رقص کرتی ہوئی کرنوں کے تلاطم کی قسم
عرصہ دہر پہ اب شام نہیں چھا سکتی
ساحر لدھیانوی
[ad_2]