نسیم فروغؔ ۔ ابھی تلک تو مُقیّد حصارِ ذات میں ہُوں رہائی پاؤں تو پِھر ساری کائنا…
۔
ابھی تلک تو مُقیّد حصارِ ذات میں ہُوں
رہائی پاؤں تو پِھر ساری کائنات میں ہُوں
مَیں سیلِ غم سے مُسلسل پُکارتا ہُوں تمہیں
مَیں نُوحِ عصر ابھی کشتئِ نجات میں ہُوں
بحکم جاں ہُوں عدم کی تلاش میں پیہم!
بحکمِ دِل ابھی رنگینئِ حیات میں ہُوں
مَیں اجنبی ہُوں ابھی تک نئی زمینوں پر
مَیں آشنائی کی سنگین مُشکلات میں ہُوں
عجب طرح سے ہُوئی شہر میں مِری تشہیر
ہر ایک جُرم میں، ہر ایک واردات میں ہُوں
کِتابِ زِیست میں مجھ کو ہی درج ہونا ہے
مَیں روشنائی ہُوں، لیکن ابھی دوات میں ہُوں
سُکوں مِلے تو مَیں سوچوں کسی کے بارے میں
ابھی تو اُلجھا ہُوا دفترِ حیات میں ہُوں
وہ جِن سے میری طبیعت کبھی نہیں مِلتی
کیوں ایسے لوگوں سے اب تک تعلقات میں ہُوں
فروغؔ! مجھ کو زمانے کا کوئی خوف نہیں!
یہ کم ہے کیا، کہ تِری چشمِ التفات میں ہُوں
نسیم فروغؔ